محمد ﷺ غیر مسلم دانشوروں کی نظر میںاللہ تعالی نے محمد ﷺ کوتمام لوگوں کی طرف رسول بناکرمبعوث کیا اوران پرقرآن مجید نازل فرماکر دعوت الی اللہ کا حکم دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : اے نبی (ﷺ) یقینا ہم نے آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانےوالا اورآگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ، اوراللہ تعالی کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ (الاحزاب : 45 - 46 ) ۔ اور ساتھ ہی اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو بہترین اخلاق کا پیکر بنایا، فرمان باری تعالی ہے: اور بیشک آپ بہت بڑے (عمده) اخلاق پر فائز ہیں۔(القلم: 4)، آپ ﷺ کی شخصیت سے اپنے پرائے سب متاثر ہوئے، جن میں بہت سارے غیر مسلم بھی آپ کی ہماگیر شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے بے ساختہ آپ ﷺ کے متعلق حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا، جن میں سےچند کا نیچے تذکرہ کیا جارہا ہے۔
موہن داس کرم چند گاندھی (1869-1948 کانگریسی راہنما)مجھے پہلے سے زیادہ اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اسلام نے تلوار کے زور پر اپنا مقام پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کا سبب پیغمبر کا اپنی ذات کو کاملاً فنا کرنا، حد درجہ سادگی، اپنے وعدوں کی انتہائی ذمہ داری سے پابندی، اپنے دوستوں سے انتہائی درجے کی عقیدت، دلیری، بے خوفی، اپنے مشن اور خدا پر پختہ ایمان ہے۔
لا مارٹائن (1790-1869فرانسیسی ادیب، لکھاری اور سیاستدان)اگر ہدف کی عظمت، وسائل کی قلت اور ناقابل یقین نتائج ہی انسان کی زیرکی کے مظاہر ہیں تو کون ہے جو جدید انسانی تاریخ میں کسی بھی شخص کا محمد سے مقابلہ کرسکے؟ دنیا کے معروف ترین انسانوں نے صرف ہتھیار، قوانین اور سلطنتیں بنائیں۔ انھوں نے اگر کسی بھی چیز کی بنیاد رکھی جو زیادہ تر مادی قوت پر مشتمل تھی، تو وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہی تنزل کا شکار ہوگئی۔ لیکن اس شخص نے اس وقت کی دنیا کی ایک تہائی اکثریت پر اپنے اثرات مرتب کیے اور اس سے بھی بڑھ کر اس نے قربان گاہوں، خداﺅں، ادیان، نظریات اور روحوں کو متاثر کیا …..فتح کے لیے صبر، اولعزمی جو کہ ریاست کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ایک نظریہ کے لیے تھی، نہ ختم ہونے والی دعائیں، خدا سے راز و نیاز، وفات اور وفات کے بعد حاصل ہونے والی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دھوکہ نہیں تھا بلکہ یہ سب، اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کے پختہ یقین نے ہی اسے یہ طاقت دی کہ وہ ایک عقیدے کا احیاء کرے۔یہ عقیدہ دو جہتی تھا، اس کی ایک جہت خدا کی وحدانیت اور دوسری جہت خدا کا غیر مادی ہونا ہے۔ پہلی جہت بیان کرتی ہے کہ خدا کیا ہے اور دوسری جہت بتاتی ہے کہ خدا کیا نہیں۔ فلسفی، خطیب، پیغمبر، قانون دان، مرد میدان، فاتح نظریات، منطقی عقائد کا احیاء کرنے والا، بیس زمینی اور ایک روحانی سلطنت کا بانی محمد ہے۔ ہر وہ معیار جس پر کسی انسان کی بڑائی کو پرکھا جاسکتا ہے، ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا کوئی اس سے عظیم انسان تھا۔؟
ایڈورڈ گبن (1737-1794 انگریز مورخ اور سیاست دان)یہ پراپیگنڈہ نہیں بلکہ اس کے دین کی دوامیت ہے جو ہماری حیرت کی مستحق ہے۔ وہی خالص اور پاکیزہ تاثر جو اس نے مکہ اور مدینہ پر منقش کیا، آج بارہ صدیوں کے انقلابات گزرنے کے باوجود ہندوستانی، ترک اور افریقن نو مذہبوں کی صورت میں محفوظ ہے۔
بوسورتھ سمتھ (1784-1884 امریکی پروٹسٹنٹ پشپ)وہ بیک وقت سیزر اور پوپ تھا، تاہم ایسا پوپ جسے کوئی دعویٰ نہ تھا اور ایسا سیزر جس کے پاس بڑا لشکر نہ تھا۔ اگر کسی شخص سے یہ پوچھا جائے کہ باقاعدہ فوج، محافظوں، محل، عوضانے کے بغیر دنیا میں کس شخص نے فی الحقیقت الہی انداز میں حکومت کی تو اس کا جواب محمد ہوگا، چونکہ ان کے پاس پوری قوت تھی، تاہم اپنے ضروری آلات اور ان کی مدد کے بغیر۔
منٹ گومری واٹ (1909-2006 سکاٹش تاریخ دان)اپنے عقائد کے لیے صعوبتیں اٹھانے پر آمادگی، اس کے اطاعت کرنے والوں اور ایمان لانے والوں کا بلند کردار، جو اسے اپنا سردار سمجھتے تھے اور اس کی عظیم و لازوال کامیابیاں اس (محمد) کی بنیادی دیانتداری کا واضح ثبوت ہیں۔
جیمز اے مشنر ( 1907-1997 صدارتی انعام یافتہ امریکی لکھاری)محمد، پر اثر انسان! جس نے اسلام کی بنیاد رکھی۔ 570 عیسوی میں ایک ایسے عرب قبیلے میں پیدا ہوا جو بتوں کی پوجا کرتا تھا۔ پیدائش کے وقت یتیم ہوا۔ وہ ہمیشہ غریبوں، ضرورت مندوں، بیواﺅں اور یتیموں، غلاموں اور مظلوموں کا خیال رکھتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں وہ ایک کامیاب کاروباری شخص بن گیا اور جلد ہی وہ ایک بیوہ خاتون کے کاروان کا مسئول بن گیا۔ پچیس سال کی عمر میں اس کی مالکہ کو اس کی خوبیوں کا اندازہ ہو گیا اور اس نے انھیں شادی کا پیغام بھیجا۔ اگرچہ وہ خاتون ان سے پندرہ سال بڑی تھی، اس کے باوجود محمد نے ان سے شادی کی اور جب تک ان کی بیوی زندہ رہیں وہ ان کے باوفا شوہر رہے۔
اپنے سے ماقبل کے ہر پیغمبر کی مانند محمد نے اپنی ناقابلیت کا احساس کرتے ہوئے خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے اپنی حیا سے مقابلہ کیا، لیکن فرشتے نے کہا کہ پڑھو، جہاں تک ہمارے علم میں ہے محمد لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے، لیکن انھوں نے ان عظیم الفاظ کی ترجمانی شروع کی جنھوں نے بہت جلد دنیا کے ایک بڑے حصے میں انقلاب برپا کر دیا۔ یعنی” خدا ایک ہے“۔محمد ہر عمل میں مستحکم طریقے سے حقیقت پسند تھے۔ جب ان کے بیٹے ابراھیم کا انتقال ہوا تو اسی وقت گرہن لگا۔ چہ مہ گویاں ہونے لگیں کہ خدا اس موت سے نالاں ہوا ہے۔ جب کہ محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ”گرہن ایک قدرتی امر ہے اسے کسی فرد کی موت یا زندگی سے ملحق کرنا بے وقوفی ہے۔“
میچل ایچ ہارٹ(1932آرتھوفززسٹ، مولفThe 100)دنیا کے سب سے موثر ترین افراد کی فہرست میں محمد کو پہلے نمبر پر رکھنے کی وجہ سے شاید کچھ انسانوں کو حیرت ہو اور شاید کچھ دیگر لوگ اس پر سوالات اٹھائیں، مگر یہ تاریخ انسانی کا وہ واحد انسان ہے جو مذہبی اور سیکولر دونوں سطح پر کامیاب رہا۔
تھامس کیرائل (1795-1881 سکاٹش لکھاری، تاریخ دان)ایک انسان تن تنہا کس طرح متحارب قبائل اور بدووں کو جوڑ کر دو دہائیوں میں ایک طاقتور اور مہذب قوم بنا سکتا ہے؟
سٹینلی لین پول (1854-1931 برطانوی ماہر آثار قدیمہ، استاد)وہ ان لوگوں کا جن کی اس نے حفاظت کی انتہائی ایماندار محافظ تھا، گفتگو اور بحث کے دوران انتہائی نرم خو اور قبول کرنے والا۔ وہ لوگ جنھوں نے اسے دیکھا اچانک ان کے دل اس کے تقدس سے بھر گئے۔ وہ لوگ جو اس کے قریب آئے اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ وہ جو اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں کو کہنا چاہیے ”کہ ہم نے اس جیسا اس سے قبل نہیں دیکھا“۔ وہ بہت کم بولتا تھا تاہم جب بولتا تھا تو اس پرزور اور باوقار انداز میں کہ اس کے کہے ہوئے کو فراموش کرنا ممکن نہیں تھا۔
جارج برینڈ شا (1856-1950 آئرش لکھاری)مجھے یقین ہے کہ اگر اس (محمد) جیسے انسان کو جدید دنیا پر حکومت مل جائے تو وہ اس دنیا کے بہت سے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے اور اس دنیا کو درکار امن اور خوش بختی لوٹا دے۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ میری نظر میں وہ انسان عیسائیت کا دشمن نہیں تھا۔ اسے انسانیت کا منجی کہا جانا چاہیے۔ میں نے محمد کے ایمان کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی کہ یہ کل کے یورپ کے لیے قابل قبول ہوگا جیسا کہ وہ آج کے یورپ کے لیے قابل قبول بننا شروع ہوچکا ہے۔
یم ایچ ہنڈمین(1842-1921لکھاری)سیاستدان محمد نے عام آدمی کی مانند زندگی گزاری وہ رسالت کے علاوہ کوئی دعوی نہیں کرتے تھے۔ لوگ اس وقت ان پر ایمان لائے جب افلاس اور آفات ان کا گھیرا کیے ہوئے تھیں اور اس وقت ان پر اعتماد کیا جب وہ کسی بڑی سلطنت کے امیر نہ تھے۔ وہ ایک پاکیزہ کردار کے حامل شخص تھے جو اپنی ذات اور خدا کی مدد پر بھروسہ رکھتے تھے۔ان کی زندگی کا کوئی گوشہ خفیہ نہ تھا اور نہ ہی ان کے انتقال میں کوئی پراسراریت ہے۔
پروفیسر راما کرشنا راؤ(1932فلسفی، استاد، محقق اور لکھاری)ایک ایماندار آدمی خدا کے اعلی ترین کاموں میں سے ہے اور محمد ایمانداروں سے کچھ بڑھ کر تھا۔ وہ ہڈیوں کی مخ تک کامل انسان تھا۔ انسانی ہمدردی، انسانی محبت اس کی روح کا ترانہ تھا۔ انسانوں کی خدمت کرنا، انسانوں کو عروج بخشنا، انسانوں کو خالص کرنا، انسان کو تعلیم دینا بلکہ یوں کہا جائے کہ انسان کو انسان بنانا ان کے مشن کا ہدف تھا۔ فکر، گفتار اور کردار میں انسانیت کی فلاح ان کا واحد غریضہ اور بنیادی اصول زندگی تھا۔
برٹرینڈ رسل(1872-1970فلسفی، منطقی، تاریخ دان)مشرق کی فوقیت فقط فوجی نہ تھی۔ محمد کے دور میں سائنس، فلسفہ، فن اور ادب سبھی نے ایک ہی وقت میں، اس وقت ترقی کی جب یورپ جہالت میں غرق تھا۔ یورپین اس دور سے بیزاری کا اظہار کرنے کے لیے اس دور کو ”جاہلیت کا دور “ کہتے ہیں۔ تاہم یہ دور فقط یورپ کے لیے جاہلیت کا دور تھا اور وہ بھی مسیحی یورپ کے لیے، اسپین جو اس وقت اسلام کے زیر اثر تھا میں عظیم الشان ثقافت پروان چڑھ رہی تھی۔
ایچ این سپیلڈنگ( پروفیسر آکسفورڈ یونیورسٹی)محمد مشیت ایزدی کا اجراء کرنے والے افراد میں سے سب سے عظیم فرد تھے۔ دیگر انبیا کی مانند وہ جانتے تھے کہ ایک روز پوری نسل انسانی ایک کمیونٹی کا روپ دھار لے گی۔
ہسٹن سمتھ( 1919امریکی محقق)محمد مدینہ کے لیے وضع کیے گیے منشور ” لا اکراہ فی الدین“جو قرآن سے اخذ کردہ تھا سے انتہائی محتاط انداز میں پیوست رہے۔ میرے خیال میں انسانی تاریخ میں یہ مذہبی آزادی کا پہلا مسودہ ہے۔
بی مارگولیوتھ (1858-1940ماہر علوم شرق، محقق)محمد پر نازل ہونے والی کتاب اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔ اس نے انسانی دل پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔ کوئی شے بھی اس کی عظمت پر حاوی نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے انسانی ذہن کو فکر کی نئی جہات، حیران کن اصلاحات اور ناقابل بیان کامیابیوں سے روشناس کرایا ہے۔
جے ایچ ڈینیسن(لکھاری)محمد نے نسل انسانی کو نابودی سے بچا لیا۔
جارج ریوریانہوں نے(محمد) عالمی حکومت کی بنیاد رکھی،ان کا قانون سبھی کے لیے ایک طرح کا تھا۔ سب کے لیے انصاف اور محبت۔
ای سٹیفن سن(1870-1956پادری)محمد کا پیغام اسلام انسانیت کے لیے ایک نعمت ہے۔ یہ اندھیرے سے اجالے اور شیطان سے رحمان کی جانب سفر کا نقیب ہے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکامحمد تمام مذہبی شخصیات میں کامیاب ترین انسان تھے۔
لیویس ممفورڈ(1895-1990امریکی تاریخ دان، محقق، نقاد)اے کرہ ارض کے باسیو! اس نبی کی تلاش کرو جس نے انسانیت کو ساتویں صدی عیسوی میں تمھیں کامیابی کی راہ دکھائی۔
جان ولیم ڈریپ(1811-1882امریکی فلسفی، سائنسدان، تاریخ دان)محمد کی قد آور شخصیت نے انسانیت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
جیمز گیون(1907-1990معروف امریکی جرنل)دنیا کے عظیم راہنماﺅں، جنھوں نے گذشتہ زمانوں میں انسانیت پر اثر چھوڑا میں سے، میں محمد کو یسوع مسیح پر فوقیت دیتا ہوں۔ 24
تھامس کارلائل(1795-`888تاریخ دان)محمد کی باتیں فطرت کے سینے سے نکلنے والی آواز ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر آوازیں ہوا کے مترادف ہیں۔ وہ افترا جو ہم(عیسائیوں) نے اس (محمد) کے بارے میں گھڑی ہے ہمارے اپنے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔
سٹینلی لین پول(1854-1931برطانوی ماہر آثار قدیمہ، استاد)وہ ایک خدا کا سچا نمائندہ تھا، جس نے اپنی زندگی کی ابتدا سے انتہا تک کبھی فراموش نہیں کیا کہ وہ کیا ہے۔
سر ولیم موئر(1819-1905ماہر علوم شرق)محمد نے بت پرستی کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے توحید، خدا کی لامحدود رحمت، انسانی اخوت، یتیموں کی کفالت، غلاموں کی آزادی اور شراب کی حرمت کی تبلیغ کی۔ کسی دین کو اسلام کی مانند کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
جوہن گوتھ(1749-1832جرمن لکھاری،سیاستدان)محمد کا پیغام اپنی عظیم منزل کی جانب شفاف، پاکیزہ اور تروتازہ ندی کی مانند رواں دواں ہے۔
پنڈت گیان درا دیو شرما شاستری (مذہبی راہنما، لکھاری)تمام نقاد اندھے ہیں۔ وہ نہیں دیکھ سکتے کہ وہ واحد تلوار جو محمد نے تانی وہ رحم، ہمدردی، دوستی اور عفو کی تلوار تھی،یہ وہ تلوار ہے جو دشمنوں کو فتح اور دلوں کو پاک کرتی ہے، ان کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ تیز دھار تھی۔ اسلام پر تنقید کرنے والا تنگ ذہن ہے جس کی آنکھیں جہالت کے نقابوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ انھیں روشنی کی بجائے آگ، حسن کی بجائے بدصورتی اور اچھائی کی بجائے برائی نظر آتی ہے۔ وہ ہر اچھی خوبی کو برائی کی صورت میں پیش کرتے ہیں جو کہ ان کی اپنی بدکرداریوں کا عکس ہے۔
میجر لیو نارڈ(1850-1943فوجی افسر، سیاستدان، لکھاری و ماہر معاشیات)اگر اس زمین پر حقیقتا کسی انسان نے خدا کو پایا، اور اپنی زندگی کو انتہائی تندہی کے ساتھ خدا کے لیے وقف کیا، تو بلا شک و شبہ وہ شخص جزیرہ عرب کا نبی ( محمد ) تھا۔
پروفیسر ٹی وی این پرسویڈ(ماہر حیاتیات ، میڈیکل پریکٹیشنر)میری نظر میں محمد ایک عام سا انسان تھا جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا۔ درحقیقت وہ ان پڑھ تھا۔ ہم چودہ سو سال پہلے کی بات کر رہے ہیں۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو ان پڑھ ہو اور ایسے عمیق بیانات دے اور اعلانات کرے جو حیران کن حد تک درست اور سائنسی نوعیت کے ہوں؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ سب اتفاقیہ ہے۔ درست اطلاعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر مورے کی مانند میرے ذہن میں اس بابت کوئی شک نہیں کہ یہ وحی یا الہام تھا جس کے سبب انھوں نے اس قسم کے بیانات دیے۔
پنڈت ہری چنداخترکس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا کسی نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا، زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا، کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دریتیم اور بندوں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا، کہہ دیا لاتقنطوا اختر کسی نے کان میں آدمیت کا عرض ساماں مہیا کر دیا، اور دل کو سر بسر محو تمنا کر دیا اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا۔
اور دیکھےاللہ، انبیاء ورسل، فرشتے، دین رحمت، خاتم الانبیاء،محمد ﷺ کون ہیں؟ وغیرہ |
.