اسلام کی بنیاد توحید پر ہے مسلمانو! دین اسلام کی بنیاد ایمان اور یقین پر رکھی گئی ہے۔ اللہ واحد کی ذات اور اس کی ساری صفات کو دل وجان سےماننےکانام توحیدہے۔ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ"کا کلمہ ساری کائنات انسانی کے لئے دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ کلمہ توحید میں اس بات کا اقرار کیا جاتا ہے کہ عبودیت کے لائق ہستی سوائے اللہ کے کوئی نہیں اور عبادت کا طریقہ بتلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں آخری رسول بنا کر بھیجا۔ اس کا مطلب یہ ہے جب ساری کائنات میں صرف حکم الہی چلتا ہے اور سارے اختیارات نفع و نقصان کے اسی کے ہاتھ میں ہیں، تو عبادت بھی اسی ایک وحدہ لاشریک کی ہونی چاہیے ۔ دنیا کی کسی مخلوق یا زمانے کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی کا کچھ بنا سکے یا بگاڑ سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ يُصَيبُ بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ" سورة يونس:107) "یعنی اللہ کی طرف سے اگر تجھ کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کو دور کرنے والا سوائے اس کے کوئی نہیں ہے اور اگر تیرے ساتھ وہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا۔" اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ سارے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعد نماز ہمیشہ یہ دعا پڑھتے تھے: " اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت " عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ: اكْتُبْ إِلَيَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاةِ، فَأَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاةِ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عَبْدَةُ، أَنَّ وَرَّادًا، أَخْبَرَهُ بِهَذَا، ثُمَّ وَفَدْتُ بَعْدُ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَمِعْتُهُ يَأْمُرُ النَّاسَ بِذَلِكَ الْقَوْلِ. مغیرہ بن شعبہ کے غلام وردا نے بیان کیا کہ معاویہ ؓ نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو لکھا مجھے رسول اللہ ﷺ کی وہ دعا لکھ کر بھیجو جو تم نے نبی کریم ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہے ۔ چنانچہ مغیرہ ؓ نے مجھ کو لکھوایا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے نبی کریم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے « اللہم لا مانع لما أعطيت ، ولا معطي لما منعت ، ولا ينفع ذا الجد منك الجد » ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اے اللہ ! جو تو دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے سامنے دولت والے کی دولت کچھ کام نہیں دے سکتی ۔ اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ کو عبدہ نے خبر دی اور انہیں وردا نے خبر دی ، پھر اس کے بعد میں معاویہ ؓ کے یہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دے رہے تھے ۔() ()۔صحیح بخاری / کتاب: تقدیر کے بیان میں / باب : جسے اللہ دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔حدیث نمبر: 6615 ارشاد الہی ہے: "مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ "( سورة التغابن:11) "یعنی آدمی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ صرف اللہ کے حکم سے پہنچتی ہے۔ " غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ابدی میں یہ بھی ہے کہ وہ مارتا اور جلاتا اور نفع اور نقصان دینے والا بھی وہی ہے، اس میں کسی زمانے کا کوئی دخل نہیں نہ کسی سال کا نہ کسی ماہ کا نہ کسی دن کا۔ یہی عقیدہ توحید ہے۔ اگر نقصان و ضرر کسی کو پہنچنا ہے تو وہ ضرور پہنچ کر رہے گا، خواہ وہ رمضان میں ہو یا ماہ صفر میں۔ ربیع الاول میں ہو یا محرم میں۔ قدرت الٰہی کا اظہار زبان رسالت سے یوں کیا جاتا ہے۔ "قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"( سورة آل عمران:26) " (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ کہ دیجئے کہ اے اللہ! تو ہی مالک الملک ہے جس کو چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسکو چھین لیتا ہے اور عزت و ذلت بھی تیرے ہی طرف سے ہے۔ ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔" ماہ صفر منحوس نہیں ہے قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ماہ صفر کی نحوست کی بدعقیدگی دراصل دور جاہلیت کے مشرکین کی پیداوار ہے جو سراپا باطل اور شرکیہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان چیزوں سے آگاہ فرمایا: چنانچہ ارشاد ہے: عن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ وَلَا غُولَ "، وَسَمِعْتُ أَبَا الزُّبَيْر ِ يَذْكُرُ أَنَّ جَابِرًا فَسَّرَ لَهُمْ قَوْلَهُ " وَلَا صَفَرَ "، فَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: الصَّفَرُ الْبَطْنُ، فَقِيلَ لِجَابِرٍ: كَيْفَ؟، قَالَ: كَانَ يُقَالُ دَوَابُّ الْبَطْنِ، قَالَ: وَلَمْ يُفَسِّرِ الْغُولَ، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: هَذِهِ الْغُولُ الَّتِي تَغَوَّلُ. سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، وہ کہتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:"بیماری کا لگنا کچھ نہیں، سفر کچھ نہیں، غول کچھ نہیں۔" ابن جریج نے کہا میں نے ابوالزبیر سے سنا، وہ کہتے تھے جابر نے "وَلَا صَفَرَ" کی تفسیر کی۔ ابوالزبیر نے کہا: صفر پیٹ کو کہتے ہیں۔ جابر سے کہا گیا: کیونکر؟ انہوں نے کہا: لوگ کہتے تھے صفر پیٹ کے کیڑے ہیں اور "غول" کی تفسیر بیان نہیں کی۔ ابوزبیر نے کہا: "غول" یہی جو ہلاک کرتا ہے مسافر کو۔() ()۔صحیح مسلم / سلامتی اور صحت کا بیان / باب : بیماری لگ جانا اور بدشگونی ، ہامہ ، صفر ، اور نوء غول یہ سب لغو ہیں ، اور بیمار کو تندرست کے پاس نہ رکھیں ۔حدیث نمبر: 5797 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، حِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ "، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَجِيءُ الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ فِيهَا فَيُجْرِبُهَا كُلَّهَا، قَال: " فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ؟". سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بیماری کا لگنا کوئی چیز نہیں اور صفر اور ہامہ کی کوئی اصل نہیں،" تو ایک گنوار بولا: یا رسول اللہ! اونٹوں کا کیا حال ہے ریت میں ایسے صاف ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن پھر ایک خارشی اونٹ آتا ہے اور ان میں جاتا ہے اور سب کو خارشی کر دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارشی کیا۔" صحیح مسلم / سلامتی اور صحت کا بیان / باب : بیماری لگ جانا اور بدشگونی ، ہامہ ، صفر ، اور نوء غول یہ سب لغو ہیں ، اور بیمار کو تندرست کے پاس نہ رکھیں ۔حدیث نمبر: 5788 یعنی ہمارے اسلام میں چھوت چھات کا کوئی عقیدہ نہیں ہے اور نہ بدفالی کی کوئی حقیقت ہے۔ اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست بھی کوئی چیز نہیں۔ نچھتر اور نہ چڑیل وغیرہ کی کوئی حقیقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تمام دور جاہلیت، بت پرستوں اور توہم کے پجاریوں کے غلط اور باطل عقائد ہیں۔ علم دین سے نابلد مسلمانوں میں ماہ صفر کی نحوست اور تیرہ تیزی کے خوف کے عقائد جو پیدا ہوئے ہیں، یہ صرف غیر مسلم طبقات کے میل جول کے اثرات ہیں۔ عجمی ممالک کے شرکیہ عقائد اور مشرکین مکہ کے باطل عقائد کے درمیان کافی اشتراک ہے اور یہ باتیں رفتہ رفتہ برصغیر کے مسلمانوں میں بھی آگئیں۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔ ماہ صفر میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا بیمار ہونا عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ماہ صفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے، اس لحاظ سے بھی ماہ صفر منحوس ہو سکتا ہے۔ حالانکہ یہ ماہ صفر کے منحوس ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج اقدس ماہ صفر میں بگڑا تھا، اس کا یہ معنی نہیں کہ ماہ صفر کی وجہ سے بگڑا تھا۔ اس ماہ میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار نہ بھی ہوتے تو کسی نہ کسی ماہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سبب بنتا۔ ماہ صفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیمار ہونا صفر کی نحوست کی دلیل ہو سکتی ہے تو ماہ ربیع الاول بھی بدرجہ اولیٰ منحوس ہو گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس ماہ میں واقع ہوئی اور یہ کسی ادنیٰ مسلمان کا بھی عقیدہ نہیں ہے کہ ماہ ربیع الاول منحوس مہینہ ہے۔ بلکہ وہ سب مسلمانوں کے ہاں مبارک و مسعود مہینہ ہے۔ اب معلوم ہوا کہ نحوست کسی سال یا دن یا ماہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جہاں کہیں ایمان اور عمل صالح خارج ہو جاتا ہے وہاں یقینا اس کو نحوست گھیر لیتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: "مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا "( سورة الجاثية:15) " یعنی جو کوئی اچھا کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کے لئے ہو گا اور جو خرابی کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہو گا۔" آخری چہار شنبہ آخری چہار شنبہ صفر کے مہینے میں آتا ہے۔ عموماً لوگ اس میں عید مناتے ہیں، غسل کرتے ہیں اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور تفریح کے لئے اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں اور ہریالی اور سبزہ پر قدم رکھنا سعادت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام باتیں اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ جواب میں یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صفر کے آخری چہار شنبہ میں افاقہ ہوا تھا۔ حالانکہ یہ افاقہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا پیش خیمہ تھا۔ بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاءکی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف رخصت ہونا ضروری تھا , وہ کام اللہ کی رضا مندی کے تحت وجود میں آگیا, اس کا تعلق سعادت یا نحوست سے کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا مسلمان ان عقائد باطلہ سے محفوظ رہیں اور صرف کتاب و سنت سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں ان کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو سنت کی راہ پر ہمیشہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور شرک و بدعت سے ہم سب کو بچائے۔ آمین وصلى اللہ وسلم على نبینا محمد وسلم |