عید كے آداب عید اللہ تعالی کی جانب سے خوشی کا موقعہ ہوتا ہے، جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں پر رحمتیں نازل فرماتا ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ہجرت کے بعد) رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ تشریف لائے (اہل مدینہ نے) دو دن کھیل کود کے لئے مقرر کر رکھے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کے بدلہ میں تمہیں ان دنوں سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں ایک یوم الاضحی اور دوسرا یوم الفطر۔ ،اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کر لو۔ (سنن ابن ماجہ: 1098)۔ تو اس طرح مسلمانوں کی صرف اور صرف تین عیدیں ہوئیں اس کے علاوہ اگر کوئی کسی خاص موقعہ اور مناسبت کو عید کا دن قرار دے تو وہ شریعت کی نظر میں عید شمار نہیں ہوگی۔ عید کے مسنون کام مسلمان شخص كے لیے عید كے روز مندرجہ ذیل كام كرنے مسنون ہیں: 1. نماز عید كے لیے جانے سے قبل غسل كرنا: عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے صحیح حدیث مروى ہے كہ:" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ عیدگاہ جانے سے قبل غسل كیا كرتے تھے"۔ (موطا امام مالك : 428) نووى رحمہ اللہ تعالى نے نماز عید كے لیے غسل كے استحباب پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كیا ہے۔ جس بنا پر جمعہ المبارك اور اس طرح عام اجتماعات میں جانے كے لیے غسل كرنے كا جو سبب اور باعث ہے وہى سبب اور معنى عید میں بھى پایا جاتا ہے، بلكہ عید میں تو یہ سبب اور بھى زیادہ ظاہر ہے۔ 2. عید الفطر كى نماز سے قبل كچھ نہ كچھ كھا كر جانا، اور عید الاضحیٰ میں نماز عید كے بعد كھانا: عید كے آداب میں ہے كہ نماز عید الفطر كے لیے جانے سے قبل كچھ نہ كچھ كھانا چاہیے حتى كہ چاہے چند كھجوریں ہى كیوں نہ كھائى جائیں۔ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے كہ:" رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم عید الفطر كے روز كھجوریں كھانے سے قبل نماز عید كے لیے نہیں جاتے تھے، اور كھجوریں طاق ( یعنى ایك یا تین ) كھاتے"(صحیح بخارى : 953) نماز عید الفطر سے قبل كچھ كھا كر جانا اس لیے مستحب كیا گیا ہے كہ اس دن روزہ نہ ركھا جائے، اور یہ روزے ختم ہونے كى نشانى ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے اس كى تعلیل بیان كرتے ہوئے كہا ہے كہ: اس میں روزے زیادہ كرنے كا سد ذریعہ، اور اللہ تعالى كے حكم كى اتباع اور پیروى ہے۔(فتح البارى : 2 / 446) جسے كھجور بھى نہ ملے تو اس كے لیے كوئى بھى چیز كھانا مباح ہے۔ عید الاضحی میں مستحب یہ ہے كہ نماز عید سے قبل كچھ نہ كھایا جائے، بلكہ نماز عید كے بعد قربانى كر كے قربانى كا گوشت كھائے، اور اگر قربانى نہ كى ہو تو نماز سے قبل كھانے میں كوئى حرج نہیں۔ 3. عید كے روز تكبیریں كہنا: عید كے روز تكبیریں كہنا عظیم سنن میں شامل ہوتا ہے، كیونكہ ارشاد بارى تعالى ہے:﴿تا كہ تم گنتى پورى كرو، اور اللہ تعالى نے جو ہدایت تمہیں دى ہے اس پر اس كى بڑائى بیان كرو، اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرو﴾۔(البقرۃ: 185) ولید بن مسلم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہیں: میں نے اوزاعى اور مالك بن انس سے عیدین میں بلند آواز سے تكبیریں كہنے كے متعلق دریافت كیا تو وہ كہنے لگے:" جى ہاں، عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عید الفطر كے روز امام كے آنے تك بلند آواز سے تكبیریں كہتے تھے" اور عبد الرحمن بن سلمى سے صحیح روایت كے ساتھ ثابت ہے كہ:" عید الاضحیٰ كى بنسبت وہ عید الفطر میں زیادہ شدید تھے"(یعنى تكبیروں میں)۔ ( ارواء الغلیل : 3 / 122) ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عید الفطر اور عید الاضحیٰ كے روز عیدگاہ آنے تك تكبیریں كہتے، اور وہاں آكر بھى امام كے آنے تك تكبیریں كہتے رہتے تھے۔( دار قطنى ) ابن ابى شیبہ نے زہرى سے صحیح سند كے ساتھ كے بیان كیا ہے كہ:" جب لوگ گھروں سے نكلتے تو عید گاہ پہنچنے تك بلند آواز كے ساتھ تكبیریں كہتے، حتى كہ جب امام آ جاتا تو لوگ تكبیریں كہنا ختم كرتے اور جب امام تكبیریں كہتا تو لوگ بھى تكبیریں كہتے"(ارواء الغلیل: 2 / 121) سلف رحمہ اللہ میں عید كے روز گھر سے نكلنے سے لیكر عید گاہ جانے اورامام كے آنے تك بلند آواز میں تكبیریں كہنا معروف اور بہت ہى مشہور امر تھا، بہت سے مصنفین نے اپنى كتب میں اس كا ذكر كیا ہے، جن میں ابن ابى شیبہ، عبد الرزاق، اور فریابى نے كتاب: " احكام العیدین " میں سلف كی ایك جماعت سے نقل كیا ہے، جن میں نافع بن جبیر بھى شامل ہیں، وہ تكبیریں كہتے اور لوگوں كے تكبیریں نہ كہنے پر تعجب كرتے اور كہتے تم تكبیریں كیوں نہیں كہتے ؟۔ اور ابن شہاب زہرى رحمہ اللہ تعالى كہا كرتے تھے:لوگ گھروں نكل كر عید گاہ جانے اور عید گاہ میں امام كے آنے تك تكبیریں كہا كرتے تھے" عید الفطر میں تكبیریں كہنے كا وقت چاند رات سے شروع ہو كر نماز عید كے لیے امام كے آنے تك رہتا ہے۔اور عید الاضحیٰ میں یكم ذوالحجہ سے شروع ہو كر آخرى ایام تشریق (13 ذو الحجۃ) كا سورج غروب ہونے تك رہتا ہے۔ تکبیر کے الفاظ تكبیر كے الفاظ یہ ہیں: مصنف ابن ابى شیبہ میں صحیح سند كے ساتھ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:" وہ ایام تشریق میں تكبیریں كہا كرتے:" الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد" اور ابن ابى شیبہ نے ہى ایك روایت میں اسى سند كے ساتھ تین بار تكبیر كے الفاظ روایت كیے ہیں۔ اور محاملى نے صحیح سند كے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے یہ الفاظ بیان كیے ہیں:" الله أكبر كبیراً الله أكبر كبیراً الله أكبر وأجلّ ، الله أكبر ولله الحمد"(اراوء الغلیل : 3 / 126) 4. عید كى مباركباد دینا: عید كے آداب میں ایك دوسرے كو عید كے روز اچھے الفاظ میں مباركباد دینا شامل ہے، چاہے اس كے الفاظ كوئى بھى ہوں، مثلا ایك دوسرے كو یہ كہے: تقبل الله منا و منكم۔ اللہ تعالى ہم اور آپ سے قبول فرمائے۔ یا عید مبارك یا اس طرح كے كوئى اور الفاظ كہیں جو مباركباد كے لیے مباح اور جائز ہوں۔ جبیر بن نفیر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہیں:عید كے روز جب نبى كریم صلى اللہ كے صحابہ كرام ایك دوسرے كو ملتے تو وہ ایك دوسرے كو یہ الفاظ كہا كرتے تھے:" تقبل منا و منك" یعنی آپ اور ہم سے قبول ہو۔(ابن حجر : سند حسن ہے،فتح البارى : 2 / 446) لہذا عید كى مباركباد دینا صحابہ كرام كے ہاں معروف تھى، اور امام احمد وغیرہ اہل علم نے اس كى رخصت دى ہے، مختلف مواقع پر مباركباد دینے كى مشروعیت پر صحابہ كرام سے ثابت ہے، كہ جب كسى كو كوئى خوشى حاصل ہوتى مثلا كسى شخص كى اللہ تعالى توبہ قبول فرماتا تو صحابہ كرام اسے مباركباد وغیرہ دیا كرتے تھے۔ اس میں كوئى شك نہیں كہ مباركباد دینا مكارم اخلاق اور مسلمانوں كے مابین اجمتاعیت حسنہ شامل ہوتى ہے۔ اور مباركباد كے سلسلہ میں كم از كم یہ كہا جا سكتا ہے كہ: جو شخص آپ كو مباركباد دے اسے آپ بھى مباركباد دیں، اور جو شخص خاموش رہے آپ بھى اس كے لیے خاموشى اختیار كریں۔ جیسا كہ امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے:" اگر مجھے كوئى شخص مباركباد دیتا ہے تو میں بھى اسے مباركباد كا جواب دیتا ہوں، لیكن میں اس كى ابتدا نہیں كرتا" ۔ 5. عید كے لیے خوبصورتى اور اچھا لباس پہننا: عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى سے مروى ہے كہ:" عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بازار سے ایك ریشمى جبہ فروخت ہوتے ہوئے دیكھا تو اسے رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم كے پاس لا كر عرض كیا:" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اسے خرید لیں تا كہ آپ اسے عید كے روز اور وفود كو ملنے كے لیے بطور خوبصورتى پہننا كریں، تو رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" یہ تو اس كے لیے ہے جس كا آخرت میں كوئى حصہ نہیں۔۔۔"(صحیح بخارى : 948) اس آیت میں نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے عید كے لیے خوبصورتى اختیار كرنے پر انكار نہیں كیا بلكہ اس كا اقرار كیا، لیكن اس جبہ كو خریدنے سے انكار كیا كیونكہ وہ ریشمى تھا۔ جابر رضى اللہ تعالى عنہ بیان كرتے ہیں كہ:" نبى كریم صلى اللہ علیہ كا ایك جبہ تھا جو آپ صلى اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ كے روز زیب تن كیا كرتے تھے"(صحیح ابن خزیمہ : 1765) اور بیہقى نے صحیح سند كے ساتھ روایت كیا ہے كہ: ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ عید كے لیے اپنا خوبصورت ترین لباس زیب تن كیا كرتے تھے۔ اس لیے آدمى كو چاہیے كہ وہ عید كے لیے خوبصورت ترین لباس زیب تن كرے۔ لیكن عورتیں جب عید كے لیے جائیں تو وہ زیب و زینت سے اجتناب كریں، كیونكہ انہیں مردوں كے سامنے زینت كے اظہار سے منع كیا گیا ہے، اور اسى طرح باہر جانے والى عورت كے لیے خوشبو لگانا بھى حرام ہے، تا كہ وہ مردوں كے فتنہ كا باعث نہ بنے، كیونكہ وہ تو صرف عبادت اور اطاعت كے لیے نكلى ہے۔ 6. نماز عید كے لیے آنے جانے میں راستہ بدلنا۔ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بیان كرتے ہیں كہ:" عید كے روز رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم راستہ تبدیل كیا كرتے تھے"(صحیح بخارى : 986) اس كى حكمت كے متعلق یہ كہا گیا ہے كہ: تا كہ روز قیامت دونوں راستے گواہى دیں، روز قیامت زمین اپنے اوپر خیر اور شر كے عمل كى گواہى دے گى۔ ایك قول یہ ہے كہ: دونوں راستوں میں اسلامى شعار كا اظہار ہو۔ اور ایك قول یہ ہے كہ: اللہ تعالى كا ذكر ظاہر كرنے كے لیے۔ اور یہ بھى كہ: یہودیوں اور منافقین كو غصہ دلایا جائے، اور تا كہ نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم كے ساتھ لوگوں كى كثرت سے انہیں ڈرایا دھمكایا جا سكے۔ اور ایك قول یہ بھى ہے: تا كہ تعلیم اور اقتداء یا پھر ضرورتمندوں پر صدقہ وغیرہ كے ذریعہ لوگوں كى حاجتیں پورى ہوں، یا پھر اپنے رشتہ داروں كى زیارت اور ان سے صلہ رحمى ہو۔ عید كى رات قیام كرنے كى فضیلت ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نیت سے اللہ تعالى كے لیے قیام كیا اس كا اس دن دل مردہ نہیں ہو گا جس دن دل مرجائیں گے"( سنن ابن ماجہ : 1782) یہ حدیث ضعیف ہے، نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم كى طرف منسوب كرنا صحیح نہیں۔ الاذكار میں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہیں:" یہ حدیث ضعیف ہے، اسے ہم نے ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ كے طریق سے مرفوع اور موقوف روایت كیا ہے، اور یہ دونوں طریق ضعیف ہیں۔ اور حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى نے" تخریج احیاء علوم الدین " میں اس كى سند كو ضعیف كہا ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہیں:" یہ حدیث غریب اور مضطرب الاسناد ہے۔ (الفتوحات الربانیۃ : 4 / 235) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ضعیف ابن ماجہ میں ذكر كرنے كے بعد اسے موضوع كہا ہے۔ اور السلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ میں ذكر كرنے كے بعد ضعیف جدا كہا ہے۔( السلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : 521 ) یہ حدیث طبرانى نے عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ سے روایت كى ہے كہ رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ كى رات شب بیدارى كى اس كا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن دل مر جائیں گے " اس روایت میں ضعف ہے۔ ہیثمى نے " مجمع الزوائد " میں كہا ہے كہ:اسے طبرانى نے " الاوسط" اور " كبیر" میں روایت كیا ہے، اس كى سند میں عمر بن ہارون بلخى ہے، جس پر ضعف غالب ہے، اور ابن مہدى نے اس كى تعریف كى ہے، لیكن اكثر نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " السلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ " میں ذكر كرنے كے بعد اسے موضوع كہا ہے۔۔( السلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : 520 ) اور امام نووى " المجموع " میں كہتے ہیں:ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: عیدین كى رات نفل و نوافل اور دوسرى عبادات كر كے شب بیدارى كرنا مستحب ہے، ہمارے اصحاب نے امامہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حدیث سےاستدلال كیا ہے كہ نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے عیدین كى رات شب بیدارى كى اس كا دل مردہ نہیں ہوگا، جس دن دل مر جائیں گے" اورمسند شافعى اور ابن ماجہ كى روایت میں ہے:" جس نے عیدین كى رات اللہ تعالى كے لیے اجروثواب كى نیت ركھتے ہوئے قیام كیا، اس كا دل مردہ نہیں ہو گا جب دل مر جائیں گے" اسے انہوں نے ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے موقوفا روایت كیا ہے،اور ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى یہ موقوف اور مرفوع بیان كى گئى ہے جیسا كہ گزر چكا ہے، اور ان سب طرق كى اسانید ضعیف ہیں۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیمہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہیں:جن احادیث میں عیدین كى رات كا ذكر ہے وہ نبى علیہ السلام كے ذمہ من گھڑت اور كذب ہیں۔ اس كا یہ معنى نہیں كہ اس رات قیام مستحب نہیں، بلكہ ہر رات قیام اور نفل نوافل ادا كرنا مشروع ہیں، اسى لیے علماء كرام كا اتفاق ہے كہ عید كى رات قیام كرنا مستحب ہے، (یعنی اگر کسی مسلمان کا یہ معمول ہے کہ وہ ہر رات قیام کرتا ہے تو اس کے حق میں عید کی رات بھی قیام کرنا اور عبادتیں کرنا جائز ہے ۔ اور جو مسلمان صرف عید کی رات کو خاص کرتے ہوئے قیام کا اہتمام کرے تو اس کے حق میں یہ جائز نہیں اس لیے کے عید کی رات کے قیام کے سلسلہ میں جتنی احادیث وارد ہیں سب ضعیف اور موضوع ہیں)۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ : 2 / 235 ) نماز عید کا طریقہ نماز عید كا طریقہ یہ ہے كہ امام شہر سے باہر نكل كر عید گاہ میں لوگوں كو دو ركعت نماز پڑھائے۔ عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ: نماز عید الفطر دو ركعت ہیں، اور نماز عیدالاضحیٰ بھى دو ركعت ہیں، تمہارے نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم كى زبان مبارك سے یہ مكمل نماز ہے قصر نہیں، جس نے افترا باندھا وہ خائب و خاسر ہوا"۔ (سنن نسائى : 1420 ) ابو سعید رضى اللہ تعالى عنہ بیان كرتے ہیں كہ:" عید الفطر اور عید الاضحیٰ كے روز نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم عید گاہ تشریف لے جاتے اور وہاں سب سے پہلے نماز پڑھاتے"(صحیح بخارى : 956)۔ نماز عید كى پہلى ركعت میں تكبیر تحریمہ كے بعد چھ یا سات تكبیریں كہى جائیگى اس كى دلیل مندرجہ حدیث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ہے:عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ بیان كرتى ہیں كہ:نماز عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں پہلى ركعت میں سات تكبیریں اور دوسرى ركعت میں پانچ تكبیرات ہیں جو كہ ركوع كى تكبیروں كے علاوہ ہیں"۔ ( ارواء الغلیل : 639 ) تكبیرات كے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھے اور پہلى ركعت میں سورۃ ق كى تلاوت كرے، اور پھر دوسرى ركعت میں پانچ تكبیرات كہنے كے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھے اور پھر سورۃ القمر كى تلاوت كے، نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم عیدین كى نماز میں یہى دو سورتیں تلاوت كیا كرتے تھے. اور اگر چاہے تو پہلى ركعت میں سورۃ الاعلى اور دوسرى ركعت میں سورۃ الغاشیۃ كى تلاوت كر لے، نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے عید كى نماز میں سورۃ الاعلى اور سورۃ الغاشیۃ كى تلاوت فرمائى تھى. امام كو نماز عید میں ان سورتوں كى تلاوت كر كے سنت كا احیاء كرنا چاہیے تا كہ اگر كوئى ایسا كرے تو مسلمان لوگوں كو علم ہو كہ ایسا كرنا سنت ہے اور وہ انكار نہ كریں. اور نماز عید كے بعد امام لوگوں كو خطبہ دے، اور خطبہ میں كچھ حصہ عورتوں كے ساتھ خاص ہو جس میں عورتوں كے احكام اور انہیں وعظ و نصیحت كى جائے، اور جس سے انہیں اجتناب كرنا چاہیے ان اشیاء سے انہیں منع كیا جائے، كیونكہ عید كے خطبہ میں نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم ایسے ہى كیا كرتے تھے.(فتاوى اركان الاسلام للشیخ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ : 398 : فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء : 8 / 300- 316) نماز عید خطبہ سے قبل ہونى چاہیے:عید كے احكام میں شامل ہے كہ نماز عید خطبہ سے قبل ادا كى جائے اس كى دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بیان كرتے ہیں كہ:" نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم عید الفطر كے روز عیدگاہ گئے اور خطبہ سے قبل نماز عید كى ادئیگى سے ابتداء كى"(صحیح بخارى : 958 ، صحیح مسلم : 885)۔ اور نماز عیدكے بعد خطبہ ہونے كى دلیل یہ حدیث بھى ہے كہ:ابو سعید رضى اللہ تعالى عنہ بیان كرتے ہیں كہ:" رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحیٰ كے روز عید گاہ جایا كرتے اور وہاں نماز عید سے ابتدا كرتے، پھر نماز سے فارغ ہو كر لوگوں كے سامنے كھڑے ہو كر انہیں وصیت كرتے، اور انہیں حكم دیتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا ہوتا تو اسے روانہ كرتے، یا كسى چیز كا حكم دینا ہوتا تو اس كا حكم بھى دیتے، جبكہ سب لوگ اپنى صفوں میں ہى بیٹھے ہوتے تھے، اور پھر وہاں سے چلے جاتے" ابو سعید رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہیں كہ:لوگ اسى پر عمل كرتے رہے حتى كہ میں مروان ـجبكہ وہ مدینہ كا گورنر تھا ـكے ساتھ عید الاضحیٰ یا عید الفطر كے روز عیدگاہ نكلے اور جب عیدگاہ پہنچے تو كثیر بن صلت نے وہاں منبر بنا ركھا تھا، اور مروان اس منبر پر نماز عید سے قبل ہى چڑھنا چاہتا تھا، میں نے اس كا كپڑا پكڑ كر كھینچا تو وہ مجھ سے كپڑا چھڑا كر منبر پر چڑھ گیا اور نماز عید سے قبل خطبہ دینے لگا تو میں نے اللہ كى قسم تم نے تبدیلى كر لى ہے !!! تو اس نے جواب دیا: ابو سعید جس كا تمہیں علم تھا وہ جا چكا. تو میں نے جواب دیا: جو میں جانتا ہوں اللہ كى قسم وہ اس سے بہتر ہے جو میں نے جانتا، تو اس نے جواب دیا: نماز عید كے بعد لوگ ہمارى بات نہیں سنتے تھے، تو میں خطبہ نماز عید سے قبل كر لیا"۔ (صحیح بخارى : 956 ). نماز عید كے بعد مصافحہ، معانقہ اور مباركباد دینا صحابہ كرام سے وارد ہے كہ وہ ایك دوسرے كو عید كى مباركباد دیا كرتے اور یہ كہتے:تَقَبَلَ اللهُ مِنَّا وَ مِنْكُمْ۔ ترجمہ: اللہ تعالى ہم سے اور تم سے قبول فرمائے۔ جبیر بن نفیر بیان كرتے ہیں كہ رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم كے صحابہ كرام عید كے روز جب ایك دوسرے كو ملتے تو ایك دوسرے كو كہتے:تَقَبَلَ اللهُ مِنَّا وَ مِنْكَ: اللہ تعالى مجھ سے اور آپ سے قبول فرمائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالى كہتے ہیں:اس میں كوئى حرج نہیں كہ ایك شخص دوسرے كو عید كے روز تقبل اللہ منا و منكم كے الفاظ كہے۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ نےاسے المغنى میں نقل كیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالى سے دریافت كیا گیا:" كیا عید مبارك اور لوگوں كى زبانوں پر جو عید مبارك كے الفاظ ہیں جائز ہیں؟ كیا شریعت اسلامیہ میں اس كى كوئى دلیل ملتى ہے یا نہیں ؟ اور اگر شرعی دلیل ہے تو پھر كیا كہا جائے؟ شیخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:" جب عید كے روز نماز عید كے بعد لوگ ایك دوسرے كو ملیں تو انہیں ایك دوسرے كو تقبل اللہ منا و منك و احالہ اللہ علیك وغیرہ كے الفاظ كہیں، صحابہ كرام كى ایك جماعت سے ایسا كرنا مروى ہے، اور اس میں آئمہ كرام مثلا امام احمد وغیرہ نے رخصت دى ہے۔ لیكن امام احمد كہتے ہیں: میں خود ابتدا میں كسى كو یہ نہیں كہتا لیكن اگر مجھے كوئى كہے تو میں جواب میں یہى الفاظ كہتا ہوں، كیونكہ تحیۃ كا جواب واجب ہے، لیكن مباركباد دینے كى ابتدا كرنا سنت مامورہ نہیں ہے، اور نہ ہى اس سے منع كیا گیا ہے، اس لیے جو یہ فعل كرتا ہے اس كے پاس قدوہ ہے، اور جو نہیں كرتا اس كے پاس بھى قدوہ ہے۔( فتاوى الكبرى: 2 / 228) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذیل سوال كیا گیا:عید كى مباركباد دینے كا حكم كیا ہے ؟ اور كیا اس كے كوئى خاص الفاظ ہیں؟ تو شیخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:" عید كى مباركباد دینا جائز ہے، اور اس كے لیے كوئى جملہ مخصوص نہیں، بلكہ لوگ جس كے عادى ہوں وہى جائز ہے جبكہ وہ گناہ نہ ہو" ۔ اور شیخ كا یہ بھى كہنا ہے:" بعض صحابہ كرام سے بھى عید كى مباركباد دینا ثابت ہے، اور اگر فرض كریں نہ بھى ہو تو اس وقت یہ ایك عادى معاملا بن چكا ہے جس كے لوگ عادى ہیں، اور رمضان المبارك كى تكمیل اور قیام كے بعد عید كے روز ایك دوسرے كو مباركباد دیتے ہیں" ۔ شیخ رحمہ اللہ تعالى سے دریافت كیا گیا:نماز عید كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے كا حكم كیا ہے ؟ تو شیخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:" ان اشیاء میں كوئى حرج نہیں، كیونكہ لوگ اسے بطور عبادت اور اللہ تعالى كا قرب سمجھ كر نہیں كرتے، بلكہ لوگ یہ بطور عادت اور عزت و اكرام اور احترام كرتے ہیں، اور جب تك شریعت میں كسى عادت كى ممانعت نہ آئے اس میں اصل اباحت ہى ہے " ۔ ( مجموع فتاوى ابن عثیمین : 16 / 208- 210 ) |