عقیقہعقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ یا بچی کی جانب سے اسکی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتا ہے، اُسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ ہے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے ۔
عقیقہ کے وجہ تسمی1۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ''عقیقہ نو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کا نام ہے اور اس کے اشتقاق میں اختلاف ہے۔ چنانچہ ابو عبید اور اصمعی کہتے ہیں:"عقیقہ دراصل مولود کے سر کے وہ بال ہیں، جو ولادت کے وقت اس کے سر پر اُگے ہوتے ہیں۔" علامہ زمخشری رحمہ اللہوغیرہ کا بیان ہے:" پیدائش کے بالوں کی موجودگی میں مولود کی طرف سے ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ سے موسوم کیا جاتا ہے، کیونکہ ذبح کے وقت یہ بال مونڈھے جاتے ہیں۔" امام خطابی رحمہ اللہبیان کرتے ہیں:نومولود کی طرف سے ذبح کی ہوئی بکری کو عقیقہ کہا جاتا ہے، کیونکہ ( نو مولود کی ولادت پر) اُس کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔(فتح الباری : 9؍726)
2۔ امام شوکانی رحمہ اللہبیان کرتے ہیں:"عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔"(نیل الأوطار : 5؍140) الغرض عقیقہ کی بحث میں قول فیصل یہ ہے کہ عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں اور اس کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور، دونوں پر ہوتا ہے اور عقیقہ سے مقصود پیدائش کے ساتویں دن نومولود کے بال مونڈھنا اور اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا ہے۔ عقیقہ کو نسیکہ یا ذبیحہ بھی کہا جاتا ہے : جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے جس میں عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:''نبیﷺ سے عقیقہ کے بارے سوال ہو تو آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (لفظ) عقوق ( نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے ( یہ نام) مکروہ خیال کیا، اور آپﷺ نے فرمایا: "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرے، لڑکے کی طرف سے برابر دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔''(سنن ابو داؤد: 2842؛ سنن نسائی: 4217)
عقيقہ كا حكماس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اس ميں تين قول ہيں: پہلا قول:كچھ علماء كرام تو عقيقہ كو واجب قرار ديتے ہيں۔دوسرا قول:كچھ علماء كرام كہتے ہيں عقيقہ مستحب ہے۔ تيسرا قول:كچھ علماء كرام اسے سنت مؤكدہ كہتے ہيں۔ ان اقوال میں سنت مؤكدہ والا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔ مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:" عقيقہ سنت مؤكدہ ہے، لڑكے كى جانب سے دو اور لڑكى كى جانب سے ايك بكرى جس طرح كى قربانى ميں ذبح ہوتى ہے اسى طرح عقيقہ كى بھى ذبح كى جائيگى، اور عقيقہ پيدائش كے ساتويں روز كيا جائيگا، اور اگر ساتويں روز سے تاخير كرے تو بعد ميں كسى بھى وقت عقيقہ كرنا جائز ہے، اور اس تاخير سے وہ گنہگار نہيں ہوگا، ليكن افضل اور بہتر يہى ہے كہ حتى الامكان جلد كيا جائے اور تاخير نہ ہو.(فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء : 11 / 439 ).
عقیقہ کا وقتعقیقہ کامستحب وقت نومولود کی پیدائش کا ساتواں دن ہے، اس سے پہلے عقیقہ مشروع نہیں اور ساتویں دن کے بعد کیا جانے والا عقیقہ قضا ہوگا ادا نہیں۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے،ساتویں دن اس کی طرف سے عقیقہ ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کانام رکھا جائے۔(صحیح بخاری: 5472) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا معین وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے اور اگر ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کیا جائے تو بے موقع ثابت ہوگا اور ساتویں دن کے بعد عقیقہ کا وقت فوت ہو جائے گا، اور اگر ساتویں دن سے قبل نومولود فوت ہو جائے تو عقیقہ ساقط ہو جائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ اسی موقف کے قائل ہیں۔(فتح الباری: 9/736، نیل الأوطار: 5/141)، يہی موقف راجح ہے کیوں کہ جس روایت میں عقیقہ کے تین دنوں (یعنی ساتواں، چودھواں اور اکیسواں) کا بیان ہے وہ روایت ضعیف ہے۔ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ساتویں، جودھویں اور اکیسویں دن عقیقہ ذبح کیا جائے۔(سنن بیہقی: 9/303، طبرانی کبیر: 5039، طبرانی صغیر: 724)
عقیقہ کی حکمتیںبچہ کی پيدائش كے بعد جو جانور ذبح كيا جاتا ہے اسے عقيقہ كہتے ہيں۔
عقيقہ كا ہدف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے معلوم ہو تا ہے:نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ گروى اور رہن ركھا ہوا ہےساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اس ککا نام رکھا جائے اور سر کے بال تراشے جائیں(سنن ابو داود: ، سنن نسائی: )"علماء كرام اس كے معنى ميں اختلاف كرتے ہيں، ايك قول يہ ہے كہ: اس كا معنى يہ ہے كہ اگر عقيقہ نہ كيا جائے تو وہ بچہ اپنے والدين كى شفاعت كرنے سے روك ديا جائيگا.
اور ايك معنى يہ ہے كہ: عقيقہ بچے كو شيطان سے چھٹكارا اور خلاصى دلانے اور شيطان سے بچاؤ كا باعث و سبب ہے، والدين كى كوتاہى كى بنا پر بچہ اس خير سے محروم ہو جاتا ہے، چاہے وہ اس كى كمائى ميں نہيں، جيس طرح كہ اس كا والد بيوى سے جماع كرتے وقت دعا پڑھے تو بچہ شيطان سے محفوظ ہو جاتا ہے اور شيطان اسے تكليف نہيں ديتا، اور اگر وہ دعا نہ پڑھے تو بچے كو يہ نصيب حاصل نہيں ہوتا"( زاد المعاد : 2 / 325 ، الشرح الممتع: 7 / 535 ).
عقیقہ کے بجائے رقم صدقہ کرنا جائز نہیں ہےکچھ لوگ عقیقہ کرنے کے بجائے اتنی رقم صدقہ کر دیتے ہیں، لیکن احادیثِ عقیقہ کی لغوی تعریف کی رو سے عقیقہ کا جانور ذبح کرنا لازم ہے، رقم صدقہ کرنے سے عقیقہ نہیں ہو گا، چنانچہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:'' عقیقہ کی رقم صدقہ کرنے کے بجائے عقیقہ کرنا افضل ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے اس پر نص بیان کی ہے اور وہ کہتے ہیں: جب عقیقہ کرنے والے کے پاس عقیقہ کرنے گنجائش نہ ہو اور وہ قرض لے کر عقیقہ کرے تو مجھے قوی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے احیاے سنّت کے عوض بہتر نعم البدل دے گا۔ ابن منذر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول مبنی بر حق ہے، کیونکہ سنت کا احیا اور ان کی اتباع افضل ہے، نیز عقیقہ کے متعلق روایات میں جتنی تاکید آئی ہے، دیگر مسائل میں اتنی تاکید وارد نہیں ہوئی، پھر اس ذبیحہ کے بارے نبیﷺ نے حکم بھی دیا ہے، سو ولیمہ اور قربانی کی طرح عقیقہ ذبح کرنے کا اہتمام اولیٰ و افضل ہے۔ ''(لمغنی مع الشرح الکبیر : 11؍121)
عقیقہ میں جانور کے عوض گوشت دینا درست نہیںعقیقہ میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اتنی مقدار میں گوشت تقسیم کرنے سے عقیقہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی، کیونکہ عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا حکم ہے اور گوشت تقسیم کرنے سے حکم کی تعمیل نہیں ہوتی، جس سے عقیقہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔ اسی سلسلے میں حافظ عبد اللہ روپڑی کا فتویٰ یہ ہے:سوال:عقیقہ کیلئے جانور ذبح کرنا ضروری ہے، یا اسکے عوض گوشت بھی کافی ہے؟جواب: حدیث میں لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور کا ذکر ہے، اس لیے گوشت کفایت نہیں کر سکتا، کیونکہ گوشت جانور نہیں۔( فتاویٰ اہل حدیث : 2؍549)
عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنا مشروع ہےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں "بلا شبہ رسول اللہﷺ نے اُنھیں ( صحابہ کرام ) کو لڑکے کی طرف سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری (ذبح کرنے) کا حکم دیا۔(جامع ترمذی : 1513؛ سنن ابن ماجہ: 3163)
اُمّ کرزرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"لڑکے کی طرف سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کی جائے۔"(جامع ترمذی : 1516؛ سنن ابن ماجہ: 3162)
مذکورہ بالا احادیث دلیل ہیں کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور عقیقہ کیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: یہ احادیث جمہور علما کے موقف کی دلیل ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کے عقیقہ میں فرق ہے۔( فتح الباری: 9/733)
شافعی، احمد، ابو ثور،ابو داؤد اور امام ظاہری بھی اسی موقف کے قائل ہیں۔(نیل الأوطار: 5/142)
لڑکے کی طرف سے ایک جانور کا عقیقہعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:"بے شک رسول اللہﷺ نے حسن و حسین کی طرف سے ایک ایک مینڈھا عقیقہ کیا۔"(سنن ابو داؤد:2841 ؛ طبرانی کبیر : 11838؛ سنن بیہقی: 2؍299۔ إسنادہ صحیح)
اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جانور کا عقیقہ بھی جائز ہے، یہ حدیث باعتبارِ سند صحیح ہے، تاہم ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی روایت میں حسن و حسین کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کرنے کا بھی تذکرہ ملتا ہے:"رسولﷺ نے (عقیقہ میں) حسن و حسین کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"(سنن نسائی: 4224... علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل: 4/379میں اس روایت کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ گزشتہ حدیث جس میں حسن و حسین کی طرف سے ایک ایک مینڈھا ذبح کرنے کا بیان ہے، نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ دلیل نہیں کہ لڑکے کی طرف سے عقیقہ کے طور پر ایک مینڈھا ذبح کرنا مشروع ہے، کیونکہ ابو الشیخ نے ایک دوسری سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، جس میں دو دو مینڈھے ذبح کرنے کا بیان ہے۔ نیز عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده کے طریق سے بھی یہی الفاظ منقول ہیں، پھر بالفرض ابو داؤد میں مروی روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں لڑکے کی طرف سے عقیقہ میں دو جانور ذبح کرنے کی منصوص روایات کا ردّ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ لڑکے کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنا بھی جائز ہے۔( فتح الباری: 9/733)
قاضی شوکانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: جس روایت میں حسن و حسین کے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح کرنے کا بیان ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جن احادیث میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرنے کا بیان ہے، وہ زائد الفاظ پر مشتمل ہے، لہٰذا زائد الفاظ پر مشتمل روایت قبول کے اعتبار سے راجح ہیں، پھر یہ بھی کہ قول فعل سے راجح ہوتاہے۔ اس اعتبار سے لڑکے کی طرف سے دو جانور ذبح کرنا ہی قرین صواب ہے۔(نیل الأوطار: 5/142)
عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کو ذبح کرنا مشروع ہےعقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کفایت کرتی ہیں، ان کے علاوہ اونٹ گائے وغیرہ کا عقیقہ نبیﷺ سے ثابت نہیں: امّ کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:"(عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، بکریوں کا مذکر یا مؤنث ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں۔"(جامع ترمذی : 1516؛ سنن ابن ماجہ : 316... إسنادہ صحیح)۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:"رسول اللہﷺ نے حسن و حسینرضی اللہ عنہ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"(سنن نسائی : 4224... إسنادہ صحیح)
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنسوں: بھیڑ اور بکری ہی کا عقیقہ مسنون و مشروع ہے اورعقیقہ میں گائے اور اونٹ کفایت نہیں کرتے، نیز عائشہ رضی اللہ عنہ کا قول بھی اس مفہوم کی تائید کرتا ہے جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکررضی اللہ عنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ سے کہا گیا : اے امّ المومنین!"اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ ! بلکہ (ہم وہ ذبح کریں گے) جو رسول ﷺ نے فرمایا ہے: ( لڑکے کی طرف سے) دو ایک جیسی بکریاں۔"(سنن بیہقی: 9؍301إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔)
عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیںجس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اور وہ یہ کہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ (عقیقہ میں) اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"( طبرانی صغیر : 229... یہ روایت مسلسل بالضعفاء ہے،موضوع)۔ (اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں، عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے، مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے،حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے)۔
عقیقہ کے جانور کی شرائطعقیقہ کے جانور میں وہ شرائط نہیں، جو قربانی کے جانور میں ہیں، لیکن مبنی بر احتیاط یہی ہے کہ قربانی کی شرائط عقیقہ میں بھی ملحوظ رکھی جائیں، کیونکہ عقیقہ کے جانور کے لیے شاة (بکری) اور کبشًا( مینڈھے) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور لفظ شاة کا اطلاق اس بکری پر ہوتا ہے جو بچہ جننے کے قابل ہو، اس طرح کبشٌ کا اطلاق پوری عمر کے جوان مینڈھے پر ہوتا ہے، لہٰذا بکری اور مینڈھے میں پوری عمر کے جوان جانور ذبح کیے جائیں اور وہ جانور نقائص و عیوب سے بھی پاک ہونے چاہییں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جانے والی چیز کا نقائص و عیوب سے پاک ہونا افضل ہے۔
قیقہ کی تقسیمعقيقہ كے گوشت كو كھانا جائز ہے، اور اسى طرح رشتہ داروں اور دوست و احباب اور فقراء و مساكين كو بھى كھلانا جائز ہے، اور اسے پكا كر كھلانا بھى جائز ہے، اسى طرح كچا گوشت بھى تقسيم كيا جا سكتا ہے۔
ام المومنین عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا عقيقہ كے گوشت كے متعلق كہتى ہيں:" اسے پورے اعضاء كے ٹكڑے بنائے جائيں اور كھايا اور كھلايا جائے"(مصنف ابن ابى شيبہ : 5)
اور ابن سيرين اور حسن بصرى سے مروى ہے كہ:" ان كے ہاں عقيقہ قربانى جيسا تھا، كھايا اور كھلايا جاتا"( مصنف ابن ابى شيبۃ:5)
اور ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:" عقيقہ كا گوشت كھايا اور كھلايا اور ہديہ اور صدقہ كيا جائے گا"( محلى ابن حزم:6)
عقيقہ كا سارا گوشت پكانا بھى مستحب ہے، حتى كہ جو صدقہ كيا جانا ہے وہ بھى، كيونكہ بعض سلف سے اس كا استحباب مروى ہے، مثلا جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما، اور عطاء بن ابى رباح عقيقہ كے متعلق كہا كرتے تھے:" اس كو اعضاء كے اعتبار سے ٹكڑے كر كے پانى اور نمك ميں پكا كر پڑوسيوں كو ہديہ كيا جائے"(سنن بیہقى :19827 )۔
اور دیکھیےوالدین کے حقوق، اولا دکے حقوق، اللہ کی رحمت، اللہ کی نعمتیں ، قربانی، صدقہ وغیرہ |
.