عاشورا کے روزے سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہو تے ہیں ، کبیرہ گناہ کیلئے توبہ ضروری ہے
عاشورا کے روزے سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہو تے ہیں ، کبیرہ گناہ کیلئے توبہ ضروری ہےسوال: اگر میں شرابی ہوں ،پھر میں نیت کر لوں کہ 9 اور 10 محرم کے روزے رکھوں گا ،کیا مجھے ان روزوں کا ثواب ملے گا ،اور اگر ملے گا تو کیا میرے سابقہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے ؟ اول: اللہ تعالی دو سال کے گناہ عرفہ کے روزے سے معاف فرماتا ہے صیام عاشورا سے نہیں، عاشورا کے روزوں سے ایک سال کے گنا ہ معاف ہوتے ہیں ۔ عرفہ کے دن کے روزے کی فضیلت کے لئے سوال نمبر:(98334)اور عاشورا کے روزوں کی فضیلت کے لئے سوال نمبر: (21775) کے جوابات دیکھیں۔ دوم: شراب نوشی کبیرہ گناہ ہے ،اگر اس کی عادت ہو تو یہ مزید سنگین اور بڑا جرم ہے ؛ کیونکہ شراب نوشی تمام خباثتوں کی جڑ اور برائیوں کا دروازہ ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے تعلق رکھنے والے دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍرضی اللہ عنہ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَشَارِبَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَآكِلَ ثَمَنِهَا، وَالْمُشْتَرِي لَهَا، وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ". انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی وجہ سے" دس آدمیوں پر لعنت بھیجی : اس کے نچوڑوانے والے پر ، اس کے پینے والے پر ، اس کے لے جانے والے پر ، اس کے منگوانے والے پر ، اور جس کے لیے لے جائی جائے اس پر ، اس کے پلانے والے پر ، اور اس کے بیچنے والے پر ، اس کی قیمت کھانے والے پر ، اس کو خریدنے والے پر اور جس کے لیے خریدی گئی ہو اس پر "۔(1) (1)۔سنن ترمذی / کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل / باب : شراب کا سرکہ بنانا منع ہے ۔حدیث نمبر: 1295،سنن ابن ماجہ/الأشربة 6 (3381)، (تحفة الأشراف: 900) ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح ابن ماجہ (3381) میں حسن صحیح قرار دیا۔ لہذا اسے چھوڑنا اور اس کی عادت سے توبہ تائب ہونا اور اللہ کی طرف متوجہ ہونا واجب ہے ۔ نیز عرفہ اور عاشورا کے روزے سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ، کبیرہ گناہوں کی معافی کے لئے پکی توبہ ضروری ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: عن ابي هريرة رضی اللہ عنہ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الصلاة الخمس، والجمعة إلى الجمعة، كفارة لما بينهن، ما لم تغش الكبائر". سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پانچوں نمازیں اور جمعہ، جمعہ تک کفارہ ہیں ان گناہوں کا جو ان کے بیچ میں ہوں، جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے۔"(2) (2)۔صحیح مسلم / طہارت کے احکام و مسائل / باب : بیان ہے کہ پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں جو ان کے درمیان میں کیے جائیں اگر کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے ۔حدیث نمبر:233۔سنن ترمذی / کتاب: نماز کے احکام و مسائل / باب : پنج وقتہ نمازوں کی فضیلت کا بیان ۔حدیث نمبر: 214 ۔مسند احمد (2/414، 484) ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَرضی اللہ عنھما، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَإِنْ عَادَ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَإِنْ عَادَ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَإِنْ عَادَ الرَّابِعَةَ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ لَمْ يَتُبْ اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَقَاهُ مِنْ نَهْرِ الْخَبَالِ "، قِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا نَهْرُ الْخَبَالِ؟، قَالَ: " نَهْرٌ مِنْ صَدِيدِ أَهْلِ النَّارِ"۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" جس نے شراب پی اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا ، اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا ، اگر اس نے دوبارہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا ، اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا ، اگر اس نے پھر شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا ، اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا ، اگر اس نے چوتھی بار بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں کرے گا ، اور اس کو نہر خبال سے پلائے گا ، پوچھا گیا ، ابوعبدالرحمٰن ! نہر خبال کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : جہنمیوں کے پیپ کی ایک نہر ہے "۔(5) (5)۔سنن ترمذی / کتاب: مشروبات ( پینے والی چیزوں ) کے احکام و مسائل / باب : شرابی کا بیان ۔حدیث نمبر: 1862،شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ :3377 میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ مبارکپوری رحمہ اللہ "تحفۃ الاحوذی" میں کہتے ہیں: عراقی اور مناوی رحمہما اللہ نے بھی یہی کہا ہے ۔ اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر (38145)کے جواب کا مطالعہ کریں۔ اگر شراب نوشی کی عادت سے فرض عبادات قبول نہیں تو عاشورا کا روزہ کیسے قبول ہو سکتا ہے؟ نیز سال کے گناہوں کا کفارہ کیسے بن سکتا ہے ؟ چنانچہ آپ پر ضروری ہے کہ جلدی سے پکی اور سچی توبہ کریں ،اور شراب نوشی کی عادت سے باز آ جائیں ،اور اپنی کوتاہی کا تدارک کر کے ،نیک اعمال کثرت سے کریں ،اللہ تعالی سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول فرمائے گا اور آپ کی کوتاہی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے کے سنگین گناہ سے درگزر فرمائے گا ۔ سوم: یہاں ہماری گفتگو عرفہ اور عاشورا کے روزے اور دیگر نفل نماز ،روزہ ،صدقہ اور قربانی وغیرہ پر مشتمل نیکی کے اعمال جو آپ کرنا چاہیں کریں، اس کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے؛ کیونکہ شراب نوشی، نیکی کے اعمال سے منع نہیں کرتی ۔ اور کبیرہ گناہ کے ارتکاب کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نیکی اور بھلائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بالکل دور ہی کر لیں ؛ کیونکہ اس طرح آپ معاملے کو مزید سنگین کر دیں گے ، اس لیے آپ توبہ کریں اور قبیح عادت کو جلدی سے ترک کر دیں، بھلائی کے کام کثرت سے کریں ،اگرچہ آپ نفس کے سامنے مغلوب ہو بھی جائیں اور آپ سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے ۔ اس لیے کہ عمل کا درست ہونا اور اس کا قبول ہونا الگ بات ہے اور سال یا دو سال کے گناہوں کی معافی کی خصوصی فضیلت الگ چیز ہے ۔ جعفر بن یونس کہتے ہیں : ہم شام کے قافلے میں تھے ،راستے میں بدو ملے تو قافلے والوں کو انہوں نے پکڑ لیا ،اور قافلے کو امیر کے سامنے پیش کر دیا، انہیں ایک تھیلی قافلے والوں کے پاس سے ملی جس میں چینی اور بادام تھے ،لوگوں نے اس میں سے کھانا شروع کر دیا لیکن امیر نے اس میں سے کچھ نہ لیا !! میں نے پوچھا: (7)۔ ملاحظہ فرمائیں:"تاریخ دمشق "(66/52) مزید کیلئے سوال نمبر : (14289)کے جواب کا مطالعہ کریں۔ واللہ اعلم ۔ حوالہ جات:https://islamqa.info/ur/176290 |
.