صفر المظفر اور نحوست كا مسئلہ2 بدشگونی شرکِ اصغر ہے بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الطِّيَرَةُ شِرْكٌ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ ثَلَاثًا، وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ". عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار فرمایا:" بدشگونی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ اس کو توکل سے دور فرما دیتا ہے "۔() ()۔سنن ابي داود / کتاب: کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل / باب : بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان ۔حدیث نمبر: 3910،سنن الترمذی/السیر 47 (1614)، سنن ابن ماجہ/الطب 43 (3538)، (تحفة الأشراف: 9207)، مسند احمد (1/389، 438، 440) ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ جامع ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوریفرماتے ہیں: آپ کا فرمان'بدشگونی شرک ہے' یعنی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا) نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے تو جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی نفع یا نقصان کی مالک ہے تو اسنے شرکِ اکبر کا ارتکاب کیا۔''() ()۔ج5؍ص197 نبی کریمﷺنے دوسری جگہ فرمایا: "مَنْ رَدَّتْهُ الطِّیَرَةُ عَنْ حَاجَتِه فَقَدْ أَشْرَكَ" " جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقیناً اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا۔"() ()۔مسند احمد: 2؍220 لہٰذا ماہِ صفر کو منحوس خیال کرنا، نحوست کی وجہ سے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکے رہنا، اس میں مٹی کے برتن ضائع کردینا، ماہ صفر کے آخری بدھ یعنی چہار شنبہ کو جلوس نکالنا اور بڑی بڑی محفلیں منعقد کرکے خاص قسم کے کھانے اور حلوے تقسیم کرنا اور چُوری کی رسم ادا کرنا وغیرہ ان احادیث کے مطابق مردود اور شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔ آخری بدھ کی خرافات بعض حضرات و خواتین صفر المظفر کے آخری بدھ کو تعطیل(چھٹی) کرکے کاروبار اور دکانیں بند کردیتے ہیں اور عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرمﷺاس آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعوی کی اصل نہ حدیث میں ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ ساری بدعات لغو اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے علامہ رشید احمد گنگوہی حنفی رقم طراز ہیں: ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن جناب رسول اللہﷺ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی۔ یہودیوں نے خوشی منائی تھی، وہ اب جاہل غیر مسلموں اور( مسلمانوں) میں رائج ہوگئی ہے۔''() ()۔تالیفات رشیدیہ: 154 فاضل بریلوی احمد رضا خان چہار شنبہ کے بارے لکھتے ہیں: ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور کا کوئی ثبوت بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفاتِ مبارک ہوئی اسکی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔''() ()۔احکام شریعت: 2؍189 صفر المظفر اور تیرہ تیزی مغربی دنیا تیرہ (13) کے عدد کو منحوس سمجھتی ہے، یہی فاسد خیالات مسلم قوم میں در آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس گمان کیا جاتا ہے۔ ان ابتدائی تیرہ دنوں کو تیرہ تیزہ کا نام دیا جاتا ہے، ان کی نحوست کو زائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ دین اسلام کے سنہری اوراق ایسے توہمات سے پاک ہیں اور ان دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کر شادی سے رک جانے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان تیرہ دنوں میں کثرت سے بلاوٴں، آفتوں اور مصائب کا نزول ہوتا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی 'بہشتی زیور' میں لکھتے ہیں: ''صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے، یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، توبہ کرو۔"() ()۔بہشتی زیور، چھٹا حصہ: 59 علامہ وحید الزمان رقم طراز ہیں: ''افسوس کہ اب تک ہندوستان کے مسلمان ایسے واہی خیالات میں مبتلا ہیں کسی تاریخ کو منحوس کہتے ہیں، کسی دن کو نامبارک جانتے ہیں، تیرہ تیزی کے صدقے نحوست کو دفع کرنے کے لیے نکالتے ہیں، اسلام میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں، سب دن اللہ کے ہیں اور جو اُس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ہونے والا ہے، نجومی اور پنڈت سب جھوٹے ہیں۔''() ()۔لغات الحدیث: 2؍605 صفر المظفر کے چند واقعات واقعات سن ہجری سن عیسوی غزوہٴ ابواء،ودان 2ھ اگست 623ء واقعہ رجیع 4ھ جولائی 625ء واقعہ بئر معونہ 4ھ جولائی 625ء سیدنا خالد بن ولید، عمرو بن عاص اورعثمان بن طلحہ کا قبولِ اسلام 8ھ جون 629ء سریہ سیدنا قطبہ بن عامر 8ھ مئی 630ء وفد بنو عزرہ کا قبول اسلام 9ھ مئی 630ء لشکرِسیدنا اُسامہ بن زید کی تیاری 11ھ مئی 632ء فتح مدائن 16ھ مارچ 637ء ولادتِ امام ابو القاسم سلمان بن احمد طبرانی 260ھ دسمبر 873 ء ولادتِ امام ابو حفص بن شاہین 297ھ اکتوبر 909ء پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ 1337ھ نومبر 1918ء از حافظ عمران الہی حفظہ اللہ ،http://magazine.mohaddis.com/shumarajaat/24-jan2012/960-safar-ul-muzafar-or-nhoosat-ka-masla.html |