رمضان المبارک میں روزہ داروں سے سرزد ہونے والی عمومی غلطیاں


ہر قسم کی حمد و ثناء ،اللہ رب العٰلمین کے لئے سزاوار ہے اور بے پناہ درود وسلام ہوں نبی ہدایت و رحمت محمد رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کے صحابہ اور صحابیات اور ان تمام لوگوں پر جو قیامت تک بہترین طریقہ سے ان کی پیروی کریں۔وبعد:

یہ وہ بعض عمومی غلطیاں اور خطائیں ہیں جو ماہ رمضان المبارک میں روزہ دار مرد و عورت سے سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ سے امید ہے کہ وہ اس مضمون سے اس کے پڑھنے والے، اس کو جمع کرنے والے اور اس کی نشر و اشاعت میں تعاون کرنے والوں کو فائدہ پہنچائے۔

 

فہرست

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کھانے پینے میں اسراف کرنا

1.  بہت سے لوگ کھانے پینے میں بے پناہ اسراف و فضول خرچی سے کام لیتے ہیں، جبکہ اس مہینہ میں طاعات کے لئے کمر کس لی جانی چاہئے اور دیگر امور میں میانہ روی اور اعتدال کی راہ اختیار کی جائے اوربھوک اور پیاس کے ذریعہ فقراء  اور مساکین کے فقر و فاقہ کا تصور کرتے ہوئے اپنے اند رخشوع و عاجزی پیدا کی جائے اور  کھانے اور پینے میں حد درجہ بداحتیاطی کرنا روزہ کی اصل مشروعیت کے منافی عمل ہے۔

 

طلوع فجر سے بہت پہلے سحری کرلینا

2۔ طلوع فجر سے بہت پہلے سحری کرلینا درست نہیں ہے اور اس غلطی کا ارتکاب بہت سے روزہ دار کرتے رہتے ہیں اور سحری میں جلدبازی کرنے میں بڑے اجر کا خسارہ اور گھاٹا ہے کیونکہ سنت یہ ہے کہ  افطارکرنے  میں عجلت اور سحری کرنے میں تاخیر کی جائے تاکہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کی اتباع کےنتیجہ میں اجر و ثواب کا حصول ممکن ہوسکے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ہمیشہ خیر میں رہیں گے ، تم لوگ افطار میں جلدی کرو اس لیے کہ یہود اس میں دیر کرتے ہیں۔" سنن ابن ماجہ۔ صیام کے احکام و مسائل ، باب : افطار کرنے میں جلدی کرنے کا بیان ۔ حدیث نمبر: 1698، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔

 

رات میں روزہ کی نیت نہ کرنا

3۔بعض روزہ دار ،رات میں روزہ کی نیت نہیں کرتے جبکہ طلوع فجر سے پہلے فرض روزہ کی حتمی نیت کرناضروری ہے۔ لہٰذا جب رمضان کریم کا مہینہ آجائے تو ضروری ہے کہ رات ہی میں روزہ کی نیت کرلی جائے۔ ام المؤمنین حفصہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کر لی ، اس کا روزہ نہیں ہوا۔" صحیح ابن ماجة (1700)،شیخ البانی نے اس حدیث کو صحيح قرار دیا۔

 

 اس کا معنی اہل علم کے نزدیک صرف یہ ہے کہ اس کا روزہ نہیں ہوتا ، جو طلوع فجر سے پہلے رمضان میں یا رمضان کی قضاء میں یا نذر کے روزے میں نیت نہیں کرتا ۔ اگر اس نے رات میں نیت نہیں کی تو اس کا روزہ نہیں ہوا ، البتہ نفل روزے میں اس کے لیے صبح ہو جانے کے بعد بھی روزے کی نیت کرنا مباح ہے ۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے :  سلمہ بن الاکوع ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ : ”لوگوں میں عاشوراء کے دن اعلان کر دو :جس نے کھا لیا ہے وہ باقی دن (بغیر کھائے پیئے) پورا کرے ، اور جس نے نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھے ۔“سنن نسائی ، کتاب:روزوں کے احکام و مسائل و فضائل ، باب : اگر کسی نے رات میں روزہ کی نیت نہیں کی تو کیا وہ اس دن نفلی روزہ رکھ سکتا ہے ؟(حدیث نمبر: 2323)، شیخ البانی نے اس حدیث کو  صحيح قرار دیا۔

 

اس کے برعکس بعض حضرات زبان سے نیت کرتے ہیں جوبالکل  غلط ہے۔ روزہ دار کا محض اپنے دل میں نیت کرنا کافی ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ "زبان سے نیت کرناواجب نہیں اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے، عام طور پرمسلمان روزہ کی نیت  کرلیتے ہیں اور ان کا روزہ درست ہوگا۔

 

اذان فجر کے ساتھ جان بوجھ کر کھانا پینا

4۔ اذان فجر کے ساتھ جان بوجھ کر کھانا پینا جاری رکھنے سے روزہ جاتا رہتا ہےکیونکہ بعض موذن حضرات کبھی احتیاطا وقت سےپہلے ہی اذان دے دیا کرتے ہیں۔

 

شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ "فجر کی اذان، طلوع فجر یا  اس کے بعد ہوتی ہے، اگر طلوع فجر کے بعد ہوتو مسلمان پر ضروری ہے کہ اذان کی آوار سنتے ہی کھانے پینے سے باز آجائے کیونکہ عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”بلال ؓ، رات میں اذان دیتے ہیں ۔ اس لیے تم لوگ سحری کھا پی سکتے ہو یہاں تک کہ (فجر کے لیے) دوسری اذان پکاری جائے ۔ “ یا (یہ فرمایا) یہاں تک کہ ” عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان سن لو ۔ “۔صحیح بخاری۔کتاب گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان ، باب: اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی اور کا نکاح کروانا یا اس کی خرید و فروخت (حدیث نمبر: 2656)

 

عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ نابینا تھے اور جب تک ان سے کہا نہ جاتا صبح ہو گئی ہے ، وہ اذان نہیں دیتے تھے ۔لہٰذا اگر تمہیں اس بات کا انداز ہو کہ موذن، طلوع فجر کے بعد ہی اذان دیتا ہے تو اس کی اذان سنتے ہی کھانے پینے سے رک جائے۔

 

رمضان کی آمد سے ناواقف شخص کا کھانے پینے سے نہ رکنا

5۔ رمضان کی آمد سے ناواقف شخص کا کھانے پینے سے نہ رکنا، جیسے وہ مسافر ہو یا سویا ہوا ہویا وہ اسباب جن کی وجہ سے اس ماہ کی آمد کا پتہ نہ چلتا ہو ، لہٰذا مسلمان پر ضروری ہے کہ اس کا علم ہوتے ہی مابقی دن میں کھانے پینے سے باز رہے۔ جیسا کہ سلمہ ابن الاکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھا لیا وہ اب (دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں) پورا کرے یا (یہ فرمایا کہ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو (تو وہ روزہ رکھے) کھانا نہ کھائے ۔ صحیح بخاری،حدیث نمبر: 1924

 

ماہ رمضان کے فضل و شرف سے ناواقف ہونا

6۔ بعض حضرات کو ماہ رمضان کے فضل و شرف کا علم نہیں ہوتا اور وہ دیگر مہینوں کی طرح سے اس کا استقبال کرتے ہیں ۔ یہ بھی بہت بڑی خطاء او رغلطی ہے۔ ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا" جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری، ابواب: رمضان میں دوزخ بند اور شیاطین قید ۔(حدیث نمبر: 1899)

 

اس عظیم مہینہ کے فضائل کے سلسلہ میں بہت احادیث وارد ہوئی ہیں۔ لہٰذا ماہ رمضان میں اعمال خیر کی نیکیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں مثلا ذکر و اذکار، تلاوتِ قرآن مجید، نیز نفل و سنت مؤکدہ کی ادائیگی وغیرہ، ان تمام مذکورہ بالا کاموں میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرنااس ماہ کی انتہائی ناقدری ہوگی۔

 

ابتداء رمضان میں نماز تراویح کا اہتمام نہ کرنا

7۔ بعض لوگ رمضان کریم کی ابتدائی راتوں میں نماز تراویح کا اہتمام نہیں کرتے ، یہ بھی غلطی ہے کیونکہ چاند نظر آتے ہی مسلمان، رمضان کی راتوں میں داخل ہوجاتا ہے اورپہلی رات ہی سے نمازِ تراویح کو باجماعت پڑھناسنت ہے۔

 

بھول کر کھانے پینے والے کو فارغ ہونے تک نہ روکنا

8۔دن کے اوقات میں بھول کر کھانے پینے والے کو اس کے فارغ ہونے تک نہ روکنا بھی ایک غلطی ہے۔شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ماہ رمضان کے اوقاتِ روزہ میں کھاتے پیتے ہوئے یا دیگر مفسدات روزہ میں سے کچھ کرتے دیکھے تو اس پر ضروری ہے کہ اس کی نکیر کرے، کیونکہ روزہ کے دوران کھانا اور پینا منکر اور برائی ہے، چاہے وہ کھانے اور پینے والا کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا ہو تاکہ دن کے اوقات میں بھول چوک کے نام سے مفطرات کا ارتکاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محارم کے تئیں لوگوں کے اندر جرات بے جا پیدا نہ ہونی پائے۔

 

روزہ کی خواہشمند چھوٹی لڑکیوں کو روزہ سے باز رکھنا

9۔ روزہ رکھنے کی خواہش رکھنے والی لڑکیوں کو یہ کہتے ہوئے روزہ سے روکنا کہ وہ ابھی چھوٹی ہیں، سرپرستوں کی غلطی ہے اور بسااوقات، عمر حیض کو پہنچنے والی لڑکیاں روزہ رکھنے کی خواہشمند ہوتی ہیں اور وہ روزہ رکھنے کی مکلف بھی ہیں، اس کے باوجود والدین کی جانب سے یہ دلیل پیش کرتے ہوئے روکنا کہ وہ چھوٹی ہیں ، غلط ہےاور وہ یہ جاننا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ ان کے ایام حیض شروع ہوئے ہیں یا نہیں۔ شیخ ابن جبرین کا کہنا ہے کہ "بہت سی لڑکیوں کے ایام حیض، ان کی عمر کےدسویں یا گیارہویں سال میں شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے گھر والے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور  ان کو چھوٹی ہی سمجھتے ہوئے انہیں روزہ رکھنے کی تاکید نہیں کرتے، یہ بھی ایک غلطی ہے کیونکہ لڑکی جب بھی حائضہ ہوجائے تو وہ عورتوں کے زمرہ میں شامل ہوگئیں اور ان پر بھی تمام شرعی امور کی عمل آوری لازم ہوگی۔

 

غلطی سے کھانے پینے والے کے روزہ میں شک ظاہر کرنا

10۔ یہ بھی غلط خیال ہے کہ دوران روزہ غلطی سے کھانے یا پینے والے کا روزہ برقرار رہنے میں شک کیا جائے، کیونکہ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جس نے روزہ رکھا ہو اور بھول کر کھا لیا ہو تو اسے اپنا روزہ پورا کر لینا چاہئے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے ۔" صحیح بخاری (حدیث نمبر: 6669) کتاب قسموں اور نذروں کے بیان میں، باب: اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں۔

 

روزہ میں مہندی لگانے کو گناہ سمجھنا

11۔ یہ بھی غلط خیال ہے کہ روزہ کے دوران خواتین، مہندی لگانے کو گناہ سمجھیں۔شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "روزہ کے دوران خواتین کے مہندی لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور سرمہ لگانے اور آنکھ میں ڈالے جانے والے قطرات جیسی کسی چیز سے روزہ اور روزہ دار پر کوئی اثراور ضرر نہیں پڑتااور روزہ برقرار رہتا ہے۔"

 

پکوان کے دوران چکنے سے پرہیز کرنا

12۔ یہ خیال بھی غلط ہے کہ روزہ کے فاسد ہونے کا خوف کرتے ہوئے دوران پکوان چکنے سے پرہیز کیا جائے۔ شیخ ابن جبرین کا کہنا ہےکہ "ضرورت کے اعتبار سے دوران پکوان، پکائی جانے والی اشیاء کے چکنے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں اور وہ اس طرح کہ زبان کے آخری حصہ میں اس چیز کو رکھے تاکہ اس کی مٹھاس اور نمکینی وغیرہ قسم کے مزہ کا پتہ چلائے لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس کا کچھ بھی حصہ گلے سے نیچے اترنے نہ پائے بلکہ وہ اس کو تھوک دے یا اپنے منہ سے نکال دے ۔ اس چیز سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔"

 

روزہ کے مفطرات اور مفسدات سے ناواقف رہنا

13۔ لوگوں کا روزہ کو توڑنے والے اور اس کو فاسد کرنےوالے امور سے ناواقف رہنا بھی ایک بڑی غلطی ہےجس میں بعض افراد مبتلا رہتے ہیں اور یہ غلطی خصوصا ابتداء رمضان سے ہی برقرار رہتی ہےاور یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ ہر روزہ دار پر واجب ہے کہ وہ رمضان کے آغاز سے کچھ پہلے ہی روزہ کو باطل اور فاسد کرنے والے امور کو جان لے تاکہ ان غلطیوں سے خود کو بچاسکے۔

 

مسواک کے استعمال کو گناہ سمجھنا

14۔ رمضان کے اوقاتِ نہار میں مسواک کے استعمال میں گناہ سمجھنا بھی غلط ہےاور بسا اوقات یہاں تک سمجھا جاتا ہے کہ مسواک کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ایسا سونچنا بالکل غلط ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا " لو لا أشق أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة» . قال البخاري رحمه الله: " ولم يخص النبي صلى الله عليه وسلم الصائم من غيره".

 

ترجمہ: "ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: ہر نماز کے وقت مسواک کرنا ۔":  صحیح بخاری ،  کتاب جمعہ کے بیان میں ، باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا(حدیث نمبر: 887)

 

امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے روزہ دار اور غیر روزہ دار کی کوئی تفریق نہیں کی"۔

 

عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گزاری ، جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے وضو کے پانی کے پاس آئے ، اپنی مسواک لے کر مسواک کی ، پھر آپ ﷺ نے آیت کریمہ« إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنہار لآيات لأولي الألباب» کی تلاوت کی یہاں تک کہ سورۃ ختم کے قریب ہو گئی ، یا ختم ہو گئی ، اس کے بعد آپ ﷺ نے وضو کیا پھر اپنے مصلی پر آئے اور دو رکعت نماز پڑھی ، پھر واپس اپنے بستر پر جب تک اللہ نے چاہا جا کر سوئے رہے ، پھر نیند سے بیدار ہوئے اور اسی طرح کیا (یعنی مسواک کر کے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی) پھر اپنے بستر پر جا کر سوئے رہے ، پھر نیند سے بیدار ہوئے ، اور اسی طرح کیا ، پھر اپنے بستر پر جا کر سوئے رہے اس کے بعد نیند سے بیدار ہوئے اور اسی طرح کیا ، ہر بار آپ ﷺ مسواک کرتے ، دو رکعت نماز پڑھتے تھے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے وتر پڑھی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن فضیل نے حصین سے روایت کی ہے ، اس میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے مسواک کی اور وضو کیا ، آپ ﷺ آیت کریمہ « إن في خلق السموات والأرض» پڑھ رہے تھے ، یہاں تک کہ پوری سورۃ ختم کر دی ۔ (ص/ح) حدیث نمبر: 58، شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔سنن ابوداود ، طہارت کے مسائل ، باب: آدمی رات کو اٹھے تو مسواک کرے ۔

 

شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "مسواک  کے استعمال سے روزہ پر کوئی فرق نہیں آتا بلکہ یہ تو دن و رات کی ابتداء اور انتہا دونوں میں کسی بھی وقت میں اور روزہ دار و بے روزہ سب کے لئے سنت ہے۔

 

تاریکی پھیلنے کے بعد ہی مؤذن کا اذان دینا

15۔ بعض موذنین کی یہ غلطی ہے کہ وہ تاریکی پھیلنے کے بعد ہی اذان دیتے ہیں اور سورج کے غروب ہونے پر قانع نہیں ہوتے اور اس ضمن میں ان کی یہ حجت ہوتی ہے  کہ ایسا کرنا ہی عبادت کے لئے زیادہ احتیاط کا متقاضی ہےجبکہ یہ عمل، سنت کی سراسر مخالفت ہے کہ سورج کے مکمل غروب ہونے کے بعد ہی اذان دی جائے اورافسوس کی بات یہ ہے کہ  اس کے علاوہ ان حضرات کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔

 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ "جب سورج کا تمام حصہ غائب ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ کھول لینا چاہئے اور آسمان میں نمودار ہونے والی بقیہ تیز سرخ روشنی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

افطار کا انتظام کرنے والوں کے حق میں دعاؤں کا اہتمام نہ کرنا

16۔ افطار کا انتظام و انصرام کرانے والوں کے حق میں روزہ داروں کا دعاء میں غفلت اور کوتاہی برتنا بھی ایک غلطی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ جب روزہ دار، کسی کے پاس افطار کریں تو انہیں ان کے حق میں دعاء کرنی چاہئے ۔ نبی کریم ﷺ سے ثابت ادعیہ یہ ہیں جیسے: "أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وتنزلت عليكم الملائكة" سنن ابن ماجہ، صیام کے احکام و مسائل۔ باب : روزہ افطار کرانے والے کا ثواب ،

 (حدیث نمبر: 1747)شیخ  البانی نے اس حدیث کو صحيح قراردیا۔

ترجمہ: عبداللہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ ؓ کے پاس افطار کیا اور فرمایا :‘‘ تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا ، اور تمہارا کھانا ، نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی ۔ ’’

 

نیز یہ دعاء "اللهم أطعم من أطعمني واسق من سقاني" ترجمہ: "اے اللہ! کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا۔"

 

یا یہ دعاء پڑھے:  "اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفرلهم وارحمهم"۔

 

ترجمہ: "اے اللہ! ان کی ہر اس چیز میں برکت نازل فرما جو تو نے ان کو دیا ہے اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔"

 

رمضان کی راتوں میں جماع کو حرام سمجھنا

17۔ رمضان کریم کی راتوں میں عورتوں سے مباشرت اور جماع کو حرام سمجھنا بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے جبکہ یہ حرمت، محض اوقات روزہ ہی میں ہے اور رات کے کسی بھی وقت میں یہ چیز بالکل حلال ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

 "أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ " سورۃ البقرۃ: 187)

ترجمہ: "روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا، وه تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیده خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے۔"

 

طلوع فجر سے حیض و نفاس سے پاک ہونے پر بھی روزہ نہ رکھنا

18۔ طلوع فجر سے قبل حیض و نفاس سے پاک ہوجانے والی خواتین کا روزہ سے باز رہنا بھی غلط ہے، غسل میں تنگی وقت کے بہانہ کرتے ہوئے روزہ رکھنے سے باز رہنا کہ ان کی پاکی صبح کے وقت میں ہوئی اور انہیں اس سے غسل کرنے کا موقع نہ ملا۔

 

شیخ ابن جبرین نے فرمایا: "طلوع فجر کے وقت ان کا خون بند ہوجائے یا صبح سے کچھ قبل، تو ان کا روزہ درست ہوگا اور فرض ادا ہوجائے گا گرچہ طلوع صبح تک انہوں  نے غسل نہ بھی کیا ہو۔’’

 

خواتین کا بلند آواز سے رونا

19۔ یہ بھی غلطی ہے کہ بعض خواتین بلند آواز سے روتی ہیں لیکن قرآن کریم کی تلاوت کے وقت رونا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس بات کی دلیل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم کلام کی سماعت سے نمازی کے قلب پر اثرپذیری ہورہی ہو اور یہ بات بلاشک و شبہ پسندیدہ ہے۔ لیکن بعض نمازیوں کے بلند آواز سے رونے کے نتیجہ میں اطراف و اکناف کے بعض دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے، مزید برآں رونے کے ساتھ ہونے والی حرکات کی وجہ سے  ساتھی نمازیوں کو بھی دشواری پیش آتی ہے اور بڑی تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض نمازی، قرات قرآن مجید کے بجائے دعاء قنوت کے دوران روتے ہیں، یہی بہتر بات ہے کہ قرآن کریم کی سماعت کے موقع ہی پر رونا چاہئے۔

 

صبح کے وقت جنبی ہونے پر گناہ خیال کرتے ہوئے روزہ کو باطل سمجھ لینا

20۔ صبح کے وقت جنبی ہونے پر گناہ کا خیال کرتے ہوئے  کہ اس کا روزہ باطل ہوگیا اور اس کی قضاء واجب ہے، یہ خیال غلط ہے بلکہ اس کا روزہ درست ہے اور روزہ باطل نہ ہوگا اور نہ ہی اس پر روزہ کی قضاء واجب ہوگی۔ بے شک نبی کریم ﷺ کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ ؓ نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے ، پھر آپ ﷺ غسل کرتے اور آپ ﷺ روزہ سے ہوتے تھے۔".صحیح بخاری،کتاب روزے کے مسائل کا بیان ،باب: روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے  حدیث نمبر: (1925 – 1926)

 

فضیلۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "احتلام سے روزہ باطل نہیں ہوتا کیونکہ یہ چیز روزہ دار کے اختیار میں نہیں ہوتی، البتہ منی کے قطرات دیکھنے کی صورت میں اس پر غسل جنابت واجب ہے۔

 

نماز تراویح کےلئے خواتین کا عطر لگا کر نکلنا

21۔ نماز تراویح کے لئے خواتین کا عطر لگاکر نکلنا جائز نہیں، اسی طرح مکمل طور پر پردہ میں ڈھکا نہ ہونا اور مساجد میں ان کی جانب سے بلند آوازوں کا پایا جانا بھی درست نہیں ہے۔یہ صنف نازک کی ذات ہی فتنہ اور آزمائش ہوتی ہے تو ایسے وقت جب زمان اور مکان دونوں ہی فضل و شرف والے ہوں تو اس کو حد درجہ احتیاط سے رہنا ہوگا۔

 

اس لئے مسلمان خاتون پر لازم ہے کہ وہ ا ن جیسے امور سے اجتناب کرنے کی خوب کوشش کرے تاکہ ان افعال سے برآمد ہونے والے گناہ سے خود بھی محفوط رہے اور دیگر نمازیوں کو بھی آزمائش میں نہ ڈالے۔

 

مسلسل سوئے ہوئے نمازوں کو مؤخر کرنا

22۔ بعض روزہ دار سوتے رہ جانے کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نمازوں کو تاخیر سے ادا کرتےہیں اور یہ عظیم خطاؤں میں سےہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ" (سورۃ الماعون: 5)

ترجمہ: "ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے (4جو اپنی نماز سے غافل ہیں"

 

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس آیت کا معنی ہےوہ لوگ جو نمازوں کو ان کے اوقات سے موخر کردیتے ہیں۔

 

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح روایت ثابت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا : کہ "کونسی نماز بہتر ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا کہ (الصلاة على وقتها)"نماز کا اس کے وقت پر ادا کرنا" ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا(على أول وقتها)"ان کے اول وقت پر ادا کرنا"

 

افطار کرنے میں تاخیر کرنا

23۔ افطار کرنے میں تاخیر کرنا بھی غلط ہے کیونکہ سنت سے ثابت ہےکہ وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوتےہی روزہ دار، افطار کرنے میں عجلت کرے، جیسا کہ روایت میں ہے:سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ لوگ برابر خیر میں رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے’’۔ سنن ترمذی ، کتاب: روزوں کے احکام و مسائل ، باب : افطار میں جلدی کرنے کا بیان، حدیث نمبر: 699

 

اور یہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیا ہے ، ان لوگوں نے افطار میں جلدی کرنے کو مستحب جانا ہے اور اسی کے شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں ۔

 

انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "افطار میں جلدی کرو اور سحری میں تاخیر کرو"

 

مؤذن کی اذان ختم ہونے تک افطار نہ کرنا

24۔ بعض روزہ دار احتیاط کی حجت قائم کرتے ہوئے موذن کی اذان ختم ہونے تک افطار سے رکے رہتے ہیں، یہ بھی غلطی ہے۔ جیسے ہی موذن کی آواز سنائی دے، روزہ دار کو چاہئے کہ وہ فوری افطار کرلے اورجو شخص اذان کے ختم ہونے تک انتظار کرے تو اس نے ایسی چیز کو اپنے آپ کو بتکلف مکلف بنالیا جس کا شریعت نے اس سے مطالبہ ہی نہ کیا، لہٰذا سنت یہی ہے کہ افطار میں عجلت اور سحری میں تاخیر کی جائے۔

 

افطار کے وقت دعاؤں سے غفلت برتنا

25۔ افطار کے وقت روزہ داروں کا دعاؤں سے غفلت اور لاپرواہی برتنا، رمضان کریم کے فوائد و ثمرات کی بہت بڑی ناقدری ہے جبکہ سنت یہ ہے کہ افطار کے وقت دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔ جیسا کہ اس موقع کے تئیں عظیم فضل و شرف کی خوشخبریاں وارد ہوئی ہیں کہ روزہ دار، ان خوش نصیبوں میں سے ہے جس کی دعاء رد نہیں کی جاتی۔جیسا کہ

 

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :"ثلاث دعوات لاترد : دعوة الوالد ودعوة الصائم ودعوة المسافر"ترجمہ: ”تین دعائیں مقبول ہی ہوتی ہیں ، والد کی دعاء، روزہ دار کی دعاء  اور مسافر کی دعاء"

 

عبداللہ بن عمر ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے : "ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله" ترجمہ” پیاس ختم ہو گئی ، رگیں تر ہو گئیں ، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا “ ۔ سنن ابوداود۔روزوں کے احکام و مسائل۔ باب: افطار کے وقت کیا دعا پڑھے ؟حدیث نمبر: 2357، شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا۔

 

رمضان کریم کے آخری عشرہ میں خریداری میں مصروف ہوجانا

26۔ بعض مسلمانوں کا رمضان کریم کے آخری عشرہ میں کپڑے، مٹھائی وغیرہ کی خریدی میں مصروف و مگن ہوجانا بہت ہی بڑی خطا اور غلطی ہےاور ان فضل وشرف والے اوقات کو ضائع کرنا ہے جس میں لیلۃ القدر متعین کی گئی ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ " لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ" (سورۃ القدر: 3)

ترجمہ: "شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے"

 

اور اس کے باوجود لوگ بازاروں میں گھومتے پھرتے اور خرید و فروخت کرتے ہوئے تہجد اور قیام اللیل جیسی عبادات سے محروم ہوجاتے ہیں۔یہ ایک انتہائی افسوسناک امر ہے جس میں اکثر مسلمان مبتلا ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرتے ہوئے آخری عشرہ میں عمل کثیر سمیٹنے کے لئے اپنی کمروں کو کس لیں اور خصوصا ان دس راتوں میں اپنے گھر والوں کو بیدار کریں اور شب بیداری کرتے ہوئے عبادات بجالائیں اور یہی نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا شیوہ اور عادت تھی۔

 

مرض کے باوجود روزہ چھوڑنے کو گناہ سمجھنا

27۔ بعض مریض، اپنے مرض کے باوجود روزہ نہ رکھنے کو گناہ تصور کرتے ہوئے مشقت اٹھاتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں، یہ سراسر غلط ہے اور حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے تکلیف کو دور کردیا ہے اور مریض کو اس بات کی اجازت اور  رخصت دی کہ وہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں ان کی قضاء کرلے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ " (سورۃ البقرۃ:185)

ترجمہ: "تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں۔"

 

افطار کے وقت مؤذن کی اذان کا جواب نہ دینا

28۔ بعض روزہ داروں کا مغرب کی اذان کے بعد افطار میں اس قدر مشغول رہنا بھی غلط ہے کہ موذن کی اذان کا جواب ہی نہ دیں بلکہ روزہ دار اور بے روزہ  کے لئے سنت یہی ہے کہ وہ مؤذن کی اذان کا جواب دے جیساکہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ” جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا ، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی “ سنن ترمذی ، کتاب: فضائل و مناقب ، باب : نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔شیخ البانی نے اس حدیث کو صحيح قرار دیا،  الإرواء (242) ، التعليق على بداية السول(20 / 52)

 

موذن کی اذان کے جواب دینے میں افطار کو روکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مؤذن کی اذان کا جواب دینے کے دوران  کھانے کی ممانعت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے، واللہ اعلم۔

 

چھوٹے بچوں اور بچیوں کو روزہ کی عادت نہ ڈلوانا

29۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو ان کے بچپن میں روزہ کی عادت نہ ڈلوانا بھی ایک غلطی ہے جبکہ مستحب یہ ہے کہ بلوغت سے پہلے ہی انہیں روزہ کی عادت ڈالی جائے اور  انہیں اس کا حکم دیا جائے تاکہ ان کو اس عمل کی مشق ہواور بالخصوص جب ان کے اندر اس کو برداشت کرنے کی طاقت موجود ہو جیسا کہ ربیع بنت معوذ ؓ نے کہا کہ عاشورہ کی صبح نبی کریم ﷺ نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ (روزہ دار کی طرح) پورے کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے ۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی (رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے ۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے ، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا ۔ صحیح بخاری، کتاب روزے کے مسائل کا بیان، باب: بچوں کے روزہ رکھنے کا بیان، حدیث نمبر: 1960

 

مسافر کی روزہ چھوڑنے پر عیب چینی کرنا

30۔ مسافر کو اس کے روزہ چھوڑنے پر عیب لگانا بھی غلط ہےکیونکہ رمضان میں مسافر کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے اور مسافر تین حالات سے خالی نہیں ہوتا:

الف۔ اگر روزہ رکھنے میں اس کو دشواری محسوس نہ ہو تو اس کا روزہ رکھنا افضل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں عمومی حکم دے دیا کہ "وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ"(سورۃ البقرۃ: 184)

 ترجمہ: " لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو "

 

ب۔ روزہ رکھنا دشوار ہونے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی رخصت کو اختیار کرنے میں تامل برتنے والے کے حق میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عمومی حکم جاری کردیا ہے کہ "لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا" (سورۃ البقرۃ : 286)

ترجمہ: " اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا"

 

اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کی رخصت سے استفادہ کیا جائے جیسا کہ وہ اس بات کو بھی پسند فرماتا ہے کہ اس کی عزیمت والے موقعوں پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جائے۔

 

ج۔ اگر مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنے اور چھوڑنے، دونوں کا اس کو اختیار ہے جیسا کہ  حمزہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسلسل روزہ رکھتا تھا ، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سفر میں مسلسل روزہ رکھوں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” اگر چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو “سنن نسائی ۔ کتاب:روزوں کے احکام و مسائل و فضائل  (حدیث نمبر: 2302)، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔

 

حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ بہت زیادہ روزہ رکھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ "تم چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو نہ رکھو"

 

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نےحالت سفر میں  روزہ رکھنے اور چھوڑنے دونوں صورتوں میں سے کسی بات کو معیوب نہیں سمجھا۔ جیسا کہ انس بن مالک ؓ نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ (رمضان میں) سفر کیا کرتے تھے ۔ (سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے) لیکن روزے دار، بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار، روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری ۔کتاب روزے کے مسائل کا بیان ،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم ( سفر میں ) روزہ رکھتے یا نہ رکھتے وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی نہیں کیا کرتے تھے۔ حدیث نمبر: 1947حدیث متعلقہ ابواب: سفر میں روزہ کے حوالے سے تنقید نہ کرنا ۔

 

رمضان میں شدید غصہ، گالی گلوج وغیرہ کرنا

31۔ رمضان کریم کے مہینہ میں شدید غصہ، چیخ و پکار اور گالی گلوج کرنا ، روزہ کے اعمال کو ضائع کرنے کا باعث ہوتا ہے اور روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کی پیروی کرتے ہوئے اجر و ثواب حاصل کرے، "ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے ، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے ، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے ، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا ۔" صحیح بخاری،کتاب روزے کے مسائل کا بیان ، باب: کوئی روزہ دار کو اگر گالی دے تو اسے یہ کہنا چاہئے کہ میں روزہ سے ہوں ؟ حدیث نمبر: 1904

 

یاد رہے کہ روزہ، محض کھانے اور پینے کو چھوڑ دینے کا نام نہیں  بلکہ اس کے دوران اپنے سارے اعضاء و جوارح کو معاصی سے بچاتے رہنا اور زبان کو فحش اور بدترین اخلاق سے محفوظ رکھنا بھی روزہ  شامل ہے۔

 

کھیل کود اور دیگر فضول کاموں میں رمضان کریم کے اوقات کو ضائع کرنا

32۔ رمضان کریم کے اوقات دن میں فضائی مقابلوں اور اس کے ساتھ منعقد ہونے والی موسیقی، گانابجانا اور وغیرہ کھیل کود میں انتہائی فضل و شرف والے اوقات کو ضائع و برباد کرنابھی بہت بڑا گناہ اور خطا ہے ، بے شک ان اعمال سے ایمان میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور روزہ دار کے عظیم اجر و ثواب کا ضیاع ہوتا ہے جس اجر و ثواب کواس عظیم مہینہ میں حاصل کرنا بہت بڑی نعمت ہے۔کس طرح ایک مسلمان اتنے عظیم خیر کے بدلہ انتہائی حقیر اعمال میں مشغول رہ سکتا ہے!

 

مسلمان پر واجب ہےکہ وہ رمضان کے سارے اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ عز وجل کی اطاعت و فرمانبرداری، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار، دعاء، مفید کتابوں کے مطالعہ، مسجد میں جم کر بیٹھنے اور علم کی مجالس میں شرکت کرنے ہی میں اپنے آپ کو اس قدر مشغول کردے کہ اس اعلی و اشرف مہینہ میں اپنے حق میں اجر و ثواب کی خوب تر کھیتیاں، اللہ تعالیٰ کی جنت میں اگانے کا باعث ہوجائے۔

 

قرآن مجید کی بلا تدبر تلاوت ہی کو درست سمجھنا

33۔ قرآن کریم کی تلاوت بغیر تدبر و تفکر اور اس کی مکمل تلاوت کرنے کے مقصد سے اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھ لینا اور یہ سمجھنا کہ اس کا یہی کام درست ہے، تو یہ بھی ایک غلطی ہے، بلکہ وہ ایک بہت ہی خطرناک راہ پر گامزن ہے کیونکہ اسی ماہ میں رسول اللہ ﷺ پر قرآن مجید کا نزول ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ" سورۃ القمر:32)

ترجمہ: اور ہم نے نصیحت کے لیے قرآن کو آسان کر دیا ہے پس کیا ہے کوئی جو نصیحت قبول کرے۔

 

"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا"(سورۃ المزمل: 4)

ترجمہ:"اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر"

 

 لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کو ترتیل (ٹہر ٹہر کر اور مکمل تجوید کا اہتمام کرتے ہوئے ) اور مکمل توجہ کے ساتھ اور ان کے معانی پر غور و فکر کرتے ہوئے پڑھے۔

 

حالت سفر میں روزہ توڑنے کو گناہ سمجھنا

34۔ بعض روزہ دار سفر میں روزہ توڑنے کو گناہ سمجھتے ہیں، یہ سونچ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سفر میں روزہ توڑنے کی اجازت دی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کی رخصت کو اپنایا جائے جیسا کہ وہ اس بات کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی عزیمت کی راہوں پر  چلاجائے۔"

 

قدرت رکھنے کے باوجود اعتکاف نہ کرنا

35۔ یہ بھی بڑی غلطی ہے کہ قدرت رکھنے کے باوجود اعتکاف کی سنت پر عمل نہ کیا جائے جبکہ اس وقت بہت سے افراد کو رخصت بھی میسر رہتی ہے تاکہ وہ مسجد میں اس اعتکاف کی سنت پر عمل پیرا ہوسکیں۔

 

اوقات روزہ میں ناخن کاٹنے اورسروغیرہ کے بال کاٹنے کو گناہ سمجھنا

36۔ رمضان کے اوقات روزہ میں بعض روزہ دار، سر کے بال کاٹنے یا ناخن تراشنے یا زیر بغل بال کھینچنے یا زیر ناف بال نکالنے کو گناہ تصور کرتے ہوئے کہتے  ہیں کہ اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ ان کاموں سے روزہ نہ ختم ہوتا ہے  اور نہ ہی اس میں کوئی فساد واقع ہوتاہے بلکہ یہ اعمال تو پسندیدہ سنتوں میں سے ہیں۔

 

اوقات روزہ میں تھوک نگلنے کو فاسد روزہ خیال کرنا

37۔ بعض روزہ دار ،اوقات روزہ میں تھوک کے نگلنے اور اس کے ساتھ آنے والے لعاب اور تھوک کو بھی گناہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ اس سے روزہ میں فساد پیدا ہوجاتا ہے اور دیگر مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے جبکہ درست بات یہ ہے کہ تھوک کے نگلنے میں کوئی حرج اور گناہ نہیں، چاہے اس کی مقدار زیادہ ہی کیوں نہ ہواور چاہے مسجد وغیرہ میں بھی یہ چیز باربارکیوں نہ  ہورہی ہو۔ تاہم اگر یہ بلغم جیسی کوئی شئی ہو تو اس کو نگلنا نہیں چاہئے بلکہ اپنی دستی وغیرہ میں اس کو تھوک دے اور تھوکنے کے دوران اتنی بلند آواز نہ نکالے کہ ہمسایہ نمازی کو تکلیف اور کراہیت محسوس ہو۔

 

بلاضرورت کلی کرنا اور ناک میں زیادہ پانی چڑھانا

38۔ رمضان کریم کے اوقات روزہ میں بلاضرورت کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانے میں زیادتی کرنا بھی غلط ہے اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرنا کہ اس کی بناء پر گرمی کی تیزی میں کمی کی جاسکتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے جیسا کہ "لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ " اللہ کے رسول ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” وضو مکمل کیا کرو ، انگلیوں میں خلال کرو ، اور ناک میں پانی اچھی طرح پہنچاؤ الا یہ کہ تم صائم ہو “ سنن ابوداود ،طہارت کے مسائل ،باب: ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کا بیان ۔ (حدیث نمبر: 142) شیخ البانی نے اس حدیث کو صحيح قرار دیا۔

 

شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ روزہ دار، ناک میں پانی چڑھانے  میں زیادتی نہ کرےاور اسی طرح کلی کرنے میں بھی مبالغہ سے کام نہ لے کیونکہ اس کے نتیجہ میں پانی پیٹ میں پہنچ جائے گا اور روزہ فاسد ہوجائے گا۔

 

دمہ کے مریض کا اسپرے کے استعمال سے پرہیز کرنا

39۔ بعض دمہ کے مریض، روزہ کے فاسد ہونے کا خوف کرتے ہوئے اسپرے کے استعمال میں گناہ تصور کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔

 

اس سلسلہ میں شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ :روزہ دار کے لئے اسپرے کا استعمال جائز ہے چاہے رمضان یا غیر رمضان کے روزے ہوں کیونکہ اسپرے، معدہ تک نہیں پہنچتا بلکہ ان کی رسائی محض نرخرے کی نالیوں تک ہی ہوتی ہے تاکہ وہ کھل جائیں کیونکہ یہ چیز نالیوں کی راہوں کو صاف کرنے کی خصوصیت ہے اور دمہ کے مریض کو اس کے استعمال سے طبعی تنفس حاصل ہوتا ہے اور یہ چیز کھانے اور پینے کے معنی میں نہیں ہے۔"

 

آنکھ میں قطرات ڈالنے یا عضو پر مرہم لگانے وغیرہ کو گناہ سمجھنا

40۔ بعض روزہ دار، آنکھ میں قطرات ڈالنے یا  کسی عضو پر مرہم لگانے یا کان میں قطرات ڈالنے یا سر میں مہندی لگانے یا سرمہ لگانے میں گناہ تصور کرتے ہیں جبکہ درست یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے استعمال سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور روزہ کے دوران مباح چیزوں میں سے ناک میں ڈالے جانے والے قطرات کے ضمن میں علماء کا صحیح قول یہ ہے کہ  ناک کے قطرات کے استعمال سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے کیونکہ یہ قطرات معدہ میں پہنچتے ہیں۔

 

اختتام

ہم نے ان جملہ غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے جس میں بالعموم روزہ دار مرد و عورت مبتلا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمارے تمام صالح اعمال کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور ہمارے روزہ اور قیام کو قبولیت کا درجہ دے اور ہمارے اعمال میں خیر و برکت نازل فرمائے۔ ہمارے نبی محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتیں نازل ہوں اور آپ کے صحابہ کرام اور آپ کی آل اولاد پر ۔

 

تمام تعریفیں اور ہر قسم کی حمد و ثناء دونوں جہانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہے۔

 

حوالہ جات

 ماخوذ از کتاب روزہ کے جدید مسائل اور اہم اصطلاحات کی تشریح

مترجم حافظ ڈاکٹر محمد عبد الواسع العمری 

ایم فل  پی ایچ ڈی شعبہ ٹرانسلیشن


 

4050 Views
ہماری اصلاح کریں یا اپنی اصلاح کرلیں
.
تبصرہ
صفحے کے سب سےاوپر