خطبہ حجۃ الوداع ہجرت کے دسويں سال اللہ کے رسول ﷺ فريضہ حج کی ادائيگی کے لئے نکلے تاکہ ارکان اسلام کی عملی شکل پایئہ تکميل کو پہنچ جائے اور لوگ آپ سے مناسک حج کا طريقہ سيکھ ليں ، چنانچہ ذی القعدہ ميں اعلان کرديا گيا کہ امسال رسول اللہ ﷺ حج کے لئے نکلنے والے ہيں ،يہ خبر پورے ملک ميں پھيل گئی اور ہرطرف سے لوگ جوق در جوق مدينہ میں اکٹھا ہونے لگے یہاں تک کہ عازمین حج کا ایک جمع غفیر مدینہ میں جمع ہو گیاجو آپﷺ کی صحبت ميں حج کرنے کواپنے لئے باعث سعادت سمجھ رہاتھا ۔ آپ ﷺ اپنے حج میں تین مشہور ومعروف خطبہ ارشاد فرامائے جس میں آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو دین اسلام کے اصول وقواعد سے آگاہ فرمایا اور بہت سی دیگر نصیحتیں بھی آپ ﷺ نے اپنے ان خطبات میں ذکر فرمائی، جو امت کے ليے مشعل راہ ثابت ہوئے ۔ قرآن فرمان باری تعالی ہے: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔(المائدة: 3) ۔ اور فرمان بارى تعالى ہے: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا.(آل عمران: 85)۔ خطبہ یوم عرفہ ... ۹ذوالحجہ نبی ﷺنے عرفہ کے دن کا خطبہ بطن وادی (عرفہ) میدانِ عرفات میں سواری پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز سے پہلے ارشاد فرمایا۔ خالد بن عداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:''میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفہ کے دن اونٹ کی رکابوں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔'' (صحیح ابوداود :۱۶۸۷،۱۶۸۶ )۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ عرفہ کا دن جمعہ کے دن تھا۔ (فتح الباری :۸؍۲۷۰)اور صاحب ِتحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں کہ ''یہ عرفہ کا دن تھا اور اس دن جمعہ تھا۔'' (تحفۃ الاحوذی: ۴؍۹۶ ) مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ : ''نبی کریمﷺ بطن الوادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیئے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہزیل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب،اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔'' (صحیح مسلم :۲۹۴۱،الرحیق المختوم: ص ۷۳۳) عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ''آگاہ رہو میں تمہارا پیش خیمہ ہوں، حوضِ کوثر پراور میں تمہارے سبب اس اُمت کی کثرت پر فخر کروں گا، مجھے شرمندہ نہ کرنا۔خبردار! کچھ لوگوں کو میں چھوڑ دوں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑوالئے جائیں گے۔ میں کہوں گا: اے میرے ربّ! یہ تو میرے اصحاب ہیں، سو وہ فرمائے گا تو نہیں جانتا جو اُنہوں نے تیرے بعد نئی بدعتیں ایجاد کیں۔''(صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۴۸۱) عرفہ کے دن ہی یہ آیت بھی نازل ہوئی: " آ ج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔''(الرحیق المختوم :۷۳۵)۔ اس کے متعلق عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ''بے شک میں بہتر جانتا ہوں کہ یہ کس مقام پر نازل ہوئی ، نبی ﷺ اس وقت عرفہ میں تھے ۔'' (بخاری:۴۴۰۷) خطبہ یوم النحر... ۱۰؍ ذوالحجہ ''رافع بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو چاشت کے وقت دن چڑھے سواری پر خطاب کرتے سنا، علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کا خطاب دہرا رہے تھے، سامعین میں بعض بیٹھے اور بعض کھڑے تھے ۔''(بیہقی:۵؍۱۴۰) وابصہ بن معبد الجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا: ''اے لوگو! کون سا مہینہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے، لوگوں نے کہا: یہی مہینہ۔ فرمایا کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آج کا دن اور وہ یوم النحر تھا۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: اللہ کے نزدیک سب سے حرمت والاشہر کون سا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی ہے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن اور اس شہر کی حرمت ہے اور یہ اس دن تک ہے جس دن تم اپنے ربّ سے ملاقات کرو گے۔ خبردار! کیا میں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا۔ لوگوں نے کیا جی ہاں! تو نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اے اللہ گواہ رہ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ہر حاضرغائب کو یہ دعوت پہنچا دے۔'' (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹) جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، آپ ﷺ نے نحر کے دن فرمایا: '' کہ لوگو! تم حج کے طریقے سیکھ لو، میں اُمید نہیں کرتا کہ اس حج کے بعد حج کرسکوں۔'' (صحیح مسلم:۱۲۹۷، مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے کے ہیں۔ تین پے درپے یعنی ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب،مضر(قبیلے کا) جو جمادی الآخرۃ اور شعبان کے درمیان ہے۔'' (صحیح بخاری:۴۴۰۶،الرحیق المختوم:۷۳۷)، مزید فرمایا: ''اچھا تو سنو کہ تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی، وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔'' (صحیح بخاری:۴۴۰۶،۷۰۷۸، الرحیق المختوم:۷۳۷،۷۳۸9) سلیمان بن عمرو بن اَحوص اپنے باپ(عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور وعظ فرمایا: ''یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیںکرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا) خبردار! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے، تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو۔ عباس بن عبدالمطّلب کا سود سارے کا سارا ختم ہے۔''(صحیح ابن ماجہ:۲۴۷۹) انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مسجد ِخیف میں جو کہ منیٰ میں ہے، خطبہ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو اس تک پہنچایا جس نے اسے سنا نہیں۔کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود فقیہ نہیں،مگر فقہ(بصورتِ حدیث) کو اٹھائے پھرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ شخص تک اس فقہ(حدیث) کو پہنچانے والے ہیں۔''(صحیح الترغیب والترہیب :۸۶)۔ اسی روایت کو کچھ الفاظ کے اضافہ کے ساتھ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسجد ِخیف، (منیٰ) میں سنا : ''تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو جس نے نہیں سنا، اس تک پہنچایا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود غیر فقیہ ہیں مگر فقہ (حدیث)کو اٹھائے پھرتے ہیں۔اور بہت سے فقہ اٹھانے والے اپنے سے زیادہ فقہ والے کی طرف بات لے جاتے ہیں... تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا: صر ف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، اور مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیرخواہی میں، اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں، بے شک ان کی دعا ان پچھلے لوگوں کو بھی گھیر لیتی ہے۔'' (صحیح ترغیب:۸۷، صحیح ابن ماجہ:۲۴۸۰، مسنداحمد:۴؍۸۰) عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے خطبہ میں فرمایا: ''اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے اور وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ بچہ اس کاہے جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر!۔ جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا تو ایسے شخص پراللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف لعنت ہے، اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔'' (صحیح ابن ماجہ :۲۱۹۲، مصنف عبدالرزاق :۱۶۳۰۶) خطبہ یوم الرؤس اوسط ایامِ التشریق... ۱۲؍ ذوالحجہ یہ خطبہ پچھلے دو خطبوں کی طرح کا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ خطبہ سوموار کو سواری پر منیٰ کے مقام پر 'اوسط ایام التشریق' میں ارشاد فرمایا۔سنن ابی داود میں ابو نجیح سے روایت ہے کہ وہ بنی بکر کے دو آدمیوں سے روایت کرتے ہیں: ''ہم نے نبی ﷺ کو اوسط ایام تشریق میں منیٰ کے مقام ،پرخطبہ ارشاد فرماتے دیکھا، اس وقت ہم ان کی سواری کے قریب ہی تھے اور منیٰ کا خطبہ یہی ہے ۔'' (صحیح ابی داود للالبانی:۱۷۲، بیہقی:۵؍۱۵۱) سراء بنت نبہاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ''میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے، کیا تم جانتے ہو، یہ کون سا دن ہے؟ اور یہ وہ دن تھا جسے 'یوم الرؤس' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سب لوگوں نے کہاکہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا! یہ اوسط ایام التشریق ہے اور تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: یہ مشعر الحرام ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: میں نہیں جانتاشاید اس وقت کے بعد میں تم سے ملاقات کروں۔ بے شک تمہارا خون، تمہارے اَموال اور تمہاری آبروئیں تمہارے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن حرمت والا ہے اور یہ شہر حرمت والا ہے ، یہاں تک کہ تم اپنے ربّ سے جاملو ۔ عنقریب وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا۔ خبردار! تمہارا قریب والا دور والے کو یہ باتیں پہنچا دے۔خبردار! کیا میں نے تم کو تبلیغ کردی۔''(بیہقی:۵؍۱۵۱، مجمع الزوائد:۳؍۲۷۳) ابونقرۃ سے روایت ہے جس میں آپ ﷺ کا فرمان یوں روایت کیا گیا ہے : ''لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیںمگر تقویٰ کے سبب سے۔'' (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۶، مسنداحمد:۵؍۴۱۲) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اوسط ایام التشریق کو ہی سورۂ سورة النصر" نازل ہوئی۔ (بیہقی:۵؍۱۵۲، الاتقان للسیوطی: 1/80) خطبہ حجۃ الوداع سے مستنبط فوائد ودروس مرد و زَن کے حقوق و فرائض:عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پرکسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو گواراہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ۔ ہدایت نامہ :اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ انسانی مساوات :لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ حرمت سود :خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے ۔تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے ،نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے!! جاہلیت کے خون معاف :سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلے خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا۔ ذاتی ذمہ داری :یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا) اطاعت امیر :اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا قائد بتا دیا جائے اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔ تلقین پیغام رسانی:جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے، کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔ باہمی سلوک:خبردار! کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے اور اپنی خواہش سے نہ دے دے۔ بدکاری کا خاتمہ :بچہ اس کا جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر ہیں۔ حفاظت نسب :جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہرکیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور عام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔ قوم کی ہلاکت کے مرض کی نشاندہی :لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے ہلاک ہوئیں۔ اہمیت علم :اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھالیا جائے۔ خبردار! علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں (یہ بات آپ ﷺ نے تین دفعہ دہرائی) احترام انسانیت :عنقریب میں تمہیں خبر دوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں محفوظ رہیں۔ دھوکہ دہی کی حوصلہ شکنی :جس شخصنے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔ باہمی اخوت :بے شک ہرمسلما ن دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بڑے دشمن کی پہچان :کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اس (دجال) کے بارے میں نہ ڈرایا ہو۔ نوح ؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں ؑ نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت محمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو۔ اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں۔ تمہارا ربّ کا نا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہو منقیٰ ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی خیرخواہی :تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا۔ صرف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیر خواہی میں اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں۔ حق وراثت :اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ سچ کی تلقین :خبردار! عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا۔ جس نے بھی مجھ پرجھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔ حفاظت دین :اپنے پروردگار کی عبادت کرو پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ درس اتحاد :اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ شہادت اور تکمیل مشن :اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ کرام ؓ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے انگشت ِشہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہے، اے اللہ گواہ رہے!! اُنہی ایام میں دین کی تکميل کی وحی نازل ہوئی:فرمان باری تعالی ہے: ''آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔'' (المائدۃ: 3)۔ اور دیکھیے ارکان اسلام، ارکان ایمان، اللہ عزوجل، محمد ﷺ، سيرت نبوی ﷺ وغیرہ۔ |