بیماری کا متعدی ہونا بیماری کا متعدی ہونا ٭ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بیماری متعدی نہیں ہوتی۔ بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں۔ الّو منحوس نہیں۔ صفر بیماری کا کوئی وجود نہیں۔ کوڑھی سے یوں دور بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔" ((صحيح البخاري، الطب، باب الجذام، ىديث: 5707 ، وصحيح مسلم، السلام، باب لاعدوٰى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر ولا نوء ولا غول ولا يورد ممرض على مصحّ، حديث: 2220)) ایک موقع پر آپﷺ کو پتہ چلا کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی بھی شامل ہے جو بیعت کرنا چاہتا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے پیغام بھیجا کہ واپس چلے جاؤ ہم نے تم سے بیعت لے لی۔ ((صحيح مسلم، السّلام، باب اجتناب المجذوم وغيره، حديث: 2231)) رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل جدید میڈیکل سائنس کے اس نظریے کے مطابق ہے کہ جلد کے زخموں کے ذریعے سے جذام کے جراثیم جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس اس بات کی قائل ہے کہ بیماریاں طبعی طور پر منتقل نہیں ہوتیں جیسا کہ اس دور کے لوگوں کا اعتقاد تھا۔ یہ ضروری نہیں کہ متعدّیہونے کی وجہ سے کوئی بیماری لازماً لاحق ہوجائے، البتہ مریض کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے سے بیماری لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ فرمان نبوی سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تمھارا کوئی استنجا کرے تو دائیں ہاتھ سے نہ کرے بلکہ بائیں سے کرے۔" ((صحيح الجامع الصّغير وزياداته، حديث: 322۔ البانی نے کہا: "یہ حدیث صحیح ہے۔")) نیز فرمایا: "جب تمھارا کوئی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو وضو کرے۔" ((صحيح الجامع الصّغير وزياداته، حديث: 361۔ البانی نے کہا: "یہ حدیث صحیح ہے۔")) یہ دونوں فرامین نبوی زبردست اہمیت کے حامل ہیں۔ بائیں ہاتھ ان حاجات کے لیے مخصوص کیا جائے جن میں گندگی لگتی ہے یا وہ قبیح سمجھی جاتی ہیں۔ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح صاف کیا جائے۔ ان کا مقصد بھی "ذاتی تعدی" کو ختم کرنا ہے جس کی جدید میڈیکل سائنس بھی قائل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ان فرامین کی خلاف ورزی سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "لعنت کے دو کاموں سے بچو۔" لوگوں نے عرض کی: "اے اللہ کے رسول! لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟" فرمایا: "وہ شخص جو لوگوں کے راستے یا درختوں کے سائے میں بول و براز کرتا ہے۔" ((صحيح مسلم، الطهارة، باب النهي عن التخلي في الطرق والظلال، حديث: 269)) ٭ ایک اور روایت میں ہے: "تین لعنت کے کاموں سے بچو، یعنی پانی کے گھاٹ، راستے کے درمیان یاسائے میں بول وبراز کرنے سے۔" ((صحيح الجامع الصّغير وزياداته، حديث: 112۔ البانی نے کہا: "یہ حدیث صحیح ہے۔")) دونوں حدیثوں میں بیان کردہ یہ تین کام اہم طبی وجہ کی بنا پر ممنوع قرار دیے گئے ہیں کیونکہ ان تین جگہوں میں بول و براز کرنے سے بیماریاں آگے منتقل ہوتی ہیں۔ یہ تینوں مقامات متعدی جراثیم کا مرکز بن جاتے ہیں۔ جس سے تندرست انسانوں میں بھی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس بھی اس امر کی تائید کرتی ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تمھارا کوئی مسجد میں کھنکھار پھینک بیٹھے تو اسے چاہیے کہ اسے دفن کردے تاکہ کسی مومن کے جسم یا کپڑے پر لگ کر تکلیف کا سبب نہ بنے۔" ((صحيح الجامع الصغير وزياداته: 439۔ البانی نے کہا: "یہ حدیث صحیح ہے۔")) مریض کا کھنکھار خصوصاً اگر مریض کو نظام تنفس کی کوئی بیماری لاحق ہو تو بیماری کے جراثیم سے بھر پور ہوتا ہے، اس لیے اسے دفن کرنا ضروری ہے۔ دفن کا طریقہ صرف مٹی میں دبانا ہی نہیں بلکہ آج کل جبکہ مساجد میں پختہ فرش بنے ہوتے ہیں، اس کا بہترین طریقہ کپڑے کے رومال سے صاف کرنا ہے۔ آج کل اس مقصد کے لیے ٹشوپیپر بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تمھارا کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے، پھر اگر اس کا ارادہ ہوکہ دو بارہ پیے تو برتن (منہ سے ایک طرف) ہٹالے، پھر اگر چاہے تو دوبارہ پیے۔" ((صحيح الجامع الصّغير وزياداته، حديث: 624۔ البانی نے کہا: "یہ حدیث صحیح ہے۔")) جب کوئی مریض پانی پینے کے دوران میں سانس لیتا ہے تو اس کے منہ اور ناک سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے ذرات سے سانس کی بیماریاں پانی میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ گرم مشروب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پھونکیں ماری جائیں تو بھی مشروب میں جراثیم منتقل ہو جاتے ہیں اور وہ مرتے بھی نہیں کیونکہ بعض جراثیم 120 درجۂ حرارت میں بھی نہیں مرتے۔ اس طرح نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عدنان بارنے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جسے بعض محققین نے سوڈان میں تجربے سے ثابت کیا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں آنتوں کی تپ دق بہت زیادہ ہے۔ تحقیق کے بعد سبب یہ معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگ گرم مشروب کو پھونکوں سے ٹھنڈا کرکے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ پھونکوں سے تپ دق کا جرثومہ مشروب میں منتقل ہوجاتا ہے جو اس کی گرمی برداشت کرلیتا ہے اور مرتا نہیں نتیجتاً اس سے آنتوں کی تپ دق پھیلتی ہے۔ ((الطّب النّبوي للشطي، ص: 279)) ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھوٹ پڑا ہے تو وہاں مت جاؤ۔ اگر تمھارے علاقے میں طاعون پھیلے تو وہاں سے نہ نکلو۔" ((صحيح البخاري، الطّبّ، باب مايذكر في الطّاعون، حديث: 5728)) اس حدیث کا دوسرا نصف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے جدید میڈیکل سائنس میں "احتیاطی پابندی" کہا جاتا ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کہتی ہے: وبا کے علاقے میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن پر بظاہر وبا کا حملہ نہیں ہوتا مگر ان میں اس بیماری کے بنیادی اثرات موجود ہوتے ہیں، بظاہر ان میں بیماری کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی اور وہ طبعی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن اس بات کا پورا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ یہ بیماری دوسرے لوگوں تک منتقل ہونے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال وہ سوڈانی جوان ہے جو تیرہ سال سے ایڈز کے جراثیم اپنے جسم میں لیے پھرتا ہے لیکن بظاہر وہ زندگی گزار رہا ہے۔ اسے دیکھنے والا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس کے وجود میں اس مہلک بیماری کے جراثیم موجود ہیں۔ ((الطّبّ النّبوي للشطي، ص: 280)) حکمت اور عقل کا تقاضا اور حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ عوام الناس پر یہ پابندی لگا دے کہ وبا کے علاقے سے کوئی شخص باہر نہ نکلے۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص جس میں اس بیماری کی جڑ موجود ہو، اس بیماری کو دوسرے علاقوں میں پھیلانے کا سبب بن جائے ۔ جب وبائی جراثیم کا اثر ختم ہوجائے اور وبا پھیلنے کا امکان نہ رہے تو پابندی اٹھالی جائے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کوئی شخص کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے۔" ((سنن النسائي، الطهارة، باب النىي عن البول في الماء الراكد۔۔۔، حديث: 222، وصحيح الجامع الصّغير وزياداته، حديث: 7596)) مزید فرمایا: "کوئی شخص غسل خانے میں پیشاب نہ کرے۔" ((سنن أبي داود، الطهارة باب في البول في المستحم، حديث: 27، وصحيح الجامع الصّغير وزياداته، حديث: 7597)) اس فرمان گرامی کی اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب جدید سائنس یہ تحقیق پیش کرتی ہے کہ بہت سی بیماریوں، مثلاً: بلہار سیا کے عوامل کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اس پانی میں نہاتا، تیرتا یا کپڑے دھوتا ہے یاوہ پانی پیتا ہے تو اس کی جلد پھٹ جاتی ہے اور بیماری شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بڑا خطرناک اور مہلک مرض ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم کسی مریض اونٹوں والے کو تندرست اونٹوں والے کے پاس مت آنے دو۔" ((صحيح البخاري، الطب، باب لاعدوٰى، حديث: 5774)) یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔ مسلم میں یہ ہے: "کوئی بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹ تندرست اونٹوں میں مت لائے۔" ((صحيح مسلم، السّلام، باب لاعدوٰى ولا طيرة ولا هامة۔۔۔، حديث: 2221)) جدید میڈیکل سائنس میں اسے "عزل" کہا جاتا ہے کہ مریض کو صحت مند افراد سے الگ رکھا جائے تاکہ بیماری آگے منتقل نہ ہو۔ ٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو وہ اپنا ہاتھ تین بار دھونے سے قبل پانی کے برتن میں نہ ڈالے، اسے کیا علم کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں کہاں لگتا رہا ہے۔" ((صحيح مسلم، الطّهارة، باب كراهة غمس المتوضئ۔۔۔، حديث: 278)) اس ارشاد نبوی کا سبب یہ خطرہ ہے کہ ممکن ہے سونے والے کا ہاتھ اس کی مقعد کو لگا ہو اور کیڑوں اور جراثیم کے انڈے اس کے ناخنوں سے چمٹ گئے ہوں۔ اگر ایسا ہاتھ پانی وغیرہ میں پڑگیا تو وہ مشروب اور غذائیں بیماریوں سے آلودہ ہوجائیں گی۔ حوالہ ( ماخوذ از کتاب : سیرت النبی ﷺ ، مؤلف : دکتور مہدی رزق اللہ احمد ، مترجم : شیخ الحدیث حافظ محمد امین ) |