اللہ پر ایمان اللہ تعالى پر ایمان لانایہ ہے كہ اللہ تعالى كے وجود پر یقین جازم ہو اور اس كی ربوبیت ، الوہیت اور اسماء صفات پر بھی یقین جازم ہو، اللہ تعالى پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے، جو شخص بھی ان پر ایمان ركھے وہ پكا اور سچا اور حقیقى مومن ہے۔ اللہ تعالى كے وجود پر ایمان اللہ تعالى كے وجود پر عقل اور فطرت بھی دلالت كرتى ہے چہ جائے كہ اس كے وجود پر شرعى دلائل بہت زیادہ ہیں: - اللہ تعالى كی موجودگى پر فطرتى دلیل: ہر مخلوق فطرتى طور پر اپنے بغیر كسی سوچ یا تعلیم كے اپنےخالق پر ایمان ركھتى ہے، اور اس فطرت كے مقتضى سے اسے كوئی بھی علیحدہ نہیں كرسكتا لیكن جس كے دل پر كوئی ایسى چیز آجائے جو اسے اس سے دور كر دے. اسی لیے نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے لیكن اس كے والدین یا تو اسے یہودی بنا دیتےہیں یا پھر عیسائی یا مجوسی " )صحیح بخاری:1358 - صحیح مسلم:2658)
- اور اللہ تعالى كے وجود پر عقلى دلیل یہ ہے كہ: یہ سارى مخلوق جو پہلے تھى اور آنے والے ہے اس كا ضرور كوئى خالق ہے جس نے اسے مخلوق كو عدم سے وجود دیا، كیونكہ یہ تو ممكن ہى نہیں كہ مخلوق اپنے نفس كی خود موجود ہو. اس مخلوق كے لئے ممكن نہیں كہ وہ اپنے آپ نفس كو خود ہی وجود میں لے آئے كیونكہ كوئی چیز اپنے آپ كو پیدا نہیں كرسكتى اور نہ ہی یہ ممكن ہے، كیونكہ اس كے وجود سے قبل وہ معدوم اور تھی ہى نہیں تو پھر وہ خالق كیسے ہو سكتى ہے؟!
اور یہ بھی ممكن نہیں كہ وہ حادثاتى طور پر ہو، كیونكہ ہر حادث كا كوئی محدث ہونا ضروری ہے، اور اس لئے كہ اس بدیع اور محكم نظام میں اس كا موجود ہونا اسباب اور مسبب میں ربط ہے، اور كائنات كا بعض كے ساتھ بعض كا ربط اور تعلق اس میں قطعى مانع ہے كہ یہ حادثاتى طور پر وجود میں آیا ہو كیونكہ اس كا وجود اصلا نظام میں ہے ہی نہیں تو پھر یہ باقى رہنے كی صورت میں منتظم كیسے ہوسكتا ہے؟ لھذا جب نہ تو یہ ممكن ہے كہ یہ مخلوقات اپنے نفس كو خود وجود دے سكتى ہیں اور یہ بھی ممكن نہیں كہ حادثاتى طور پر بھی وجود میں نہیں آئیں تو پھر اس كا تعین ہوا كہ اس كا كوئی موجد ہے اور وہ اللہ رب العالمین ہے. اللہ تعالى نے یہ عقلى دلیل اور قطعى برہان سورہ طور میں ذكر كرتے ہوئے فرمایا: كیا یہ بغیر كسی ( پیدا كرنے والے( كے خود بخود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا كرنے والے ہیں؟ ) الطور:35) یعنى وہ بغیر كسی خالق كے پیدا نہیں ہوئے، اور نہ ہى انہوں نے اپنے آپ كو خود پیدا كیا ہے تو یہ تعین ہو گیا كہ ان كا خالق اللہ تعالى تبارك وتعالى ہى ہے. اور اسی لئے جب جبیر بن مطعم نے رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم كو سورۃ الطور كی تلاوت كرتے ہوئے سنا اور جب وہ اس آیت پر پہنچے: كیا یہ بغیر كسی ( پیدا كرنے ) والے كے خود بخود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا كرنے والے ہیں؟ كیا انہوں نے ہى آسمان وزمین كو پیدا كیا ہے؟ بلكہ یہ یقین نہ كرنے والے لوگ ہیں، یا كیا ان كے پاس تیرے رب كے خزانے ہیں ؟ یا یہ ان خزانوں كے داروغہ ہیں؟)الطور:35-37) اورجبیر اس وقت مشرك ہونے كےباوجود كہنے لگے: میرا دل نكل كر اڑنے لگا اور یہ میرے دل میں ایمان كی سب سے پہلى كرن تھى. اسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالى نے كئی ایك مقام پر بیان كیا ہے. اس كی مزید وضاحت كے لئے ہم ایك مثال بیان كرتےہیں: اگر كوئی شخص آپ كو ایك پختہ محل كی كے متعلق بتائے جسے باغات نے گھیر ركھا اور اس كے درمیان نہریں جاریں ہوں اور وہ محل قالینوں اور پلنگوں سے بھرا ہوا ہو اور كئی قسم كی زینت والى اشیاء سے مزین كیا گیا ہو تو وہ شخص كہے كہ یہ محل اور اس میں جو كچھ ہے اس نے اپنے آپ كو خود بنایا ہے یا یہ حادثاتى طور پر بغیر كسی موجود كے ہى بن گیا، تو آپ فورا انكار كریں گے اور اسے جھوٹا اور كذاب قرار دیں گےاور اس كی اس بات كو بے وقوفی قرار دینگے. تو كیا اس كے بعد اس وسیع آسمان وزمین اور یہ سارا فلك جو ظاہر اور محكم اور مضبوط ہے اس نے كیا اپنےآپ كو خود وجود دیا ہے یا یہ سب كچھ حادثاتى طور پر بغیر كسی موجد كے ہی بن گیا ہے؟ اور اس دلیل كو تو ایك صحراء میں رہنے والا خانہ بدوش سمجھ گیا اور اس نے اسے اپنے اسلوب میں بیان كیا، جب كسی نے اس سے پوچھا كہ تو نے اپنے رب كو كیسے پہچانا؟ تو اس خانہ بدوش كا جواب تھا: اونٹ كی مینگنى اونٹ پر دلالت كرتى ہے اور پاؤں كے نشانات چلنے كی دلیل ہیں، تو برجوں والا آسمان اور راستوں والى زمین اور موجوں والے سمندر كیا یہ سننے اور دیكھنے والے پر دلالت نہیں كرتے؟!! اللہ تعالى كی ربوبیت پر ایمان یعنی یہ ایمان ركھنا كہ وہ رب اكیلا ہے اس كا كوئی شریك نہیں اور نہ ہى اس كا كوئی معین ومددگار ہے. اور رب وہ ہے جس كى مخلوق، اور بادشاہی ہو اور وہ مدبر ہو اور تدبیر اسى كى ہے، اللہ تعالى كے علاوہ خالق كوئی نہیں اور نہ ہى اللہ كے سوال كوئی مالك ہے اور امور كی تدبیر كرنے والا اللہ كے سوا كوئی نہیں. فرمان بارى تعالى ہے: یاد ركھو اللہ ہى كے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاكم ہونا)الاعراف:54) اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا: آپ كہہ دیجئے كہ وہ كون ہے جو تم كو آسمان اور زمین سے روزى دیتا ہے یا وہ كون ہے جو كانوں اور آنكھوں پر پورا اختیار كرتا ہے اور وہ كون ہے جو زندہ كو مردہ سے نكالتا ہے اور مردہ كو زندہ سے نكالتا ہے اور وہ كون ہے جو تمام كاموں كی تدبیر كرتا ہے ؟ وہ ضرور یہى كہیں گے كہ اللہ ، تو ان سے كہیں كہ پھر تم كیوں نہیں ڈرتے)یونس:31) اور ایك مقام پر فرمایا: وہ آسمان سے لے كر زمین تك ہر كام كی تدبیر كرتا ہے پھر وہ اسى كی طرف چڑھ جاتا ہے)السجدۃ:5) اور ایك مقام پر ارشاد ربانى ہے: یہى ہے اللہ تم سب كو پالنے والا اسى كی سلطنت ہے، اور جن كوتم اللہ كے سوا پكار رہے ہو وہ تو كھجور كی گٹھلى كے چھلكے كے بھى مالك نہیں)فاطر:13) اور سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالى كے اس فرمان {وہ جزا كے دن كا مالك ہے} الفاتحۃ ( 4 ) پر غور كریں اور متواتر قرات میں ملك یوم الدین بھی آیا ہے كہ وہ یوم جزا كا بادشاہ ہے، اور جب ان دونوں قراتوں كو جمع كریں تو بدیع معنى ظاہر ہو گا، لھذا ملك سلطہ و قوت میں مالك سے زیادہ بلیغ معنى ہے لیكن بعض اوقات بادشاہ صرف نام كا ہى بادشاہ ہوتا ہے نہ كر تصرف كا، یعنی وہ كسی چیز میں تصرف كی قدرت نہیں ركھتا، تو اس وقت ملك تو ہے لیكن مالك نہیں اور جب یہ دونوں جمع ہو گئے كہ اللہ تعالى مالك بھى ہے اور بادشاہ بھى تو یہ تدبیر اور ملك سے یہ معاملہ پورا ہوگیا. اللہ تعالى كی الوہت پر ایمان یعنى وہ معبود برحق ہے اس كا كوئی شریك نہیں. اور الہ مالوہ یعنى معبود كے معنى میں ہے مبحت اور تعظیم میں، اور لا الہ الا اللہ كا بھی یہى معنى ہے: یعنى اللہ تعالى كےسوا كوئی حقیقى معبود نہیں: اللہ تعالى كا فرمان ہے: اور تمہارا معبود ایك ہى ہے اس كے علاوہ كوئی معبود نہیں وہ رحمن بھى اور رحیم بھی) البقرۃ:163) اور ایك دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا: اللہ تعالى، فرشتے، اور اہل علم اس بات كی گواہی دیتے ہیں كہ اللہ تعالى كے سوا كوئی معبود برحق نہیں اور وہ عدل كو قائم ركھنے والا ہے، اس غالب اور حكمت والے كے سوا كوئی عبادت كے لائق نہیں)آل عمران:18) اور اللہ تعالى كے ساتھ اللہ كے علاوہ جس كو بھی الہ اور معبود بنایا جائے اور اس كی عبادت كی جائے تواس كی الوہی باطل ہے. فرمان بارى تعالى ہے: یہ سب اس لیے كہ اللہ ہى حق ہے اور اس كے سوا جسے بھى یہ پكارتے ہیں وہ باطل ہے ، بیشك اللہ تعالى بلندى والا اور كبریائى والا ہے)الحج:62) اور انہیں معبود اور الہ كا نام دینے سے انہیں الوہیت كا حق حاصل نہیں ہوجاتا، اللہ تعالى نے ( لات اور عزى اورمناۃ ) كے بارہ میں فرمایا: یہ تو سوائے ناموں كے كچھ نہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ركھ لیے ہیں اللہ تعالى نے ان كی كوئی دلیل نہیں اتارى)النجم:23) اور اللہ تعالى نے یوسف علیہ السلام كے بارہ میں فرمایا كہ انہوں نے اپنے قیدى ساتھیوں سے كہا: اے میرے قید خانے كےساتھیو! كیا متفرق كئی ایك پروردگا بہتر ہیں ؟ یا ایك اللہ زبردست طاقت ور؟ اس كے سوا تم جن كی پوجا پاٹ كر رہے ہو وہ سب نام ہى نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہى گھڑ لیے ہیں اللہ تعالى نے اس كی كوئی دلیل نازل نہیں فرمائى)یوسف:40) لھذا كوئی بھی عبادت كا مستحق نہیں صرف ایك اللہ ہى كی عبادت كی جائےگی اس كےعلاوہ كسی كی نہیں، اور اس حق میں كوئی ایك بھی شریك نہیں ہو سكتا، نہ تو كوئی مقرب فرشتہ اور نہ ہى كو مبعوث كردہ رسول اور نبى، اسى لیے سب انبیاء كرام كی دعوت اول سے لیكر آخرتك یہى تھى كہ لا الہ الا اللہ اللہ تعالى كی علاوہ كوئی معبود برحق نہیں. فرمان بارى تعالى ہے: اور آپ سے قبل جو نبى بھی ہم نے بھیجا اس كی طرف یہى وحى كی كہ میرے علاوہ كوئی معبود برحق نہیں لھذا میرى ہى عبادت كرو) الانبیاء:25) اور ایك مقام پر فرمایا: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا كہ لوگو صرف اللہ كی عبادت كرو اور اس كے سوا تمام معبودوں سے بچو )النحل:36) لیكن ان مشركوں نے اس كا انكار كیا اور اللہ تعالى كے علاوہ كئی ایك كو الہ بنایا اور اللہ سبحانہ وتعالى كے ساتھ ان كی بھی عبادت كرنے لگےاور ان سے مدد و استغاثہ مانگنےلگے. اللہ تعالى كے اسماء اور اس كے صفات پر ایمان یعنى: اللہ تعالى نے جو كچھ اپنى كتاب عزیز میں اپنے لیے ثابت كیا ہے اور سنت نبویہ میں نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالى كے لیے جو اسماء وصفات بیان كیے ہیں انہیں اللہ تعالى كی شایان بغیر كسی تحریف اور اور تمثیل اور بغیر كوئی كیفیت بیان كیے اور اس كی تاویل اور انہیں معطل كیے بغیر ان پر ایمان ركھنا اور انہیں ثابت كرنا. اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے: اور اللہ تعالى كے لیے ہى اچھے اچھے نام ہیں تم اسے انہیں ناموں سے پكارو اور جو لوگ اس كے ناموں میں الحاد كرتے ہیں انہیں چھوڑ دو عنقریب انہیں ان كے اعمال كی سزا دى جائے گى)الاعراف:180) لھذا یہ آیت اللہ تعالى كے اسماء حسنى كےاثبات كی دلیل ہے اور ایك دوسرے مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے: اسی كی بہترین اور اعلى صفت ہے آسمانوں اور زمین میں بھى اور وہى غلبے والا اور حكمت والا ہے) الروم:27) اور یہ آیت اللہ تعالى كی صفات كمال كے اثبات كی دلیل ہے، كیونكہ المثل الاعلى یعنى كامل اور اكمل وصف ہے، تو دونوں آیتیں اللہ تعالى كے اسماء حسنى اور بلند صفات كو عمومى طور پر ثابت كرتى ہیں، اور كتاب و سنت میں اس كی تفصیل بہت زیادہ ہے. اور یہ باب بھى علم كے ابواب میں سے ایك باب ہے یعنى اللہ تعالى كے اسماء اور اس كی صفات ایك ایسا مسئلہ ہے جس میں امت كے اكثر افراد كے مابین اختلاف پایا گیا ہے اور اللہ تعالى كے اسماء اور صفات كے متعلق امت كئی ایك فرقوں میں بٹ گئی ہے. اور اس اختلاف میں ہمارا موقف وہى ہے جس كا ہمیں اللہ تعالى نےحكم دیا ہے: فرمان باری تعالى ہے: لھذا اگر تم كسی چیز میں اختلاف كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول كی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ تعالى اوریوم آخرت پر ایمان ركھتے ہو) النساء:59). لھذا ہم یہ تنازع اوراختلاف اللہ تعالى كی كتاب اور اس كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم كی سنت پر پیش كرتے ہیں اور اس میں صحابہ كرام رضی اللہ تعالى عنہم اور تابعین عظام كی ان آیات اور احادیث میں فہم اور سمجھ سے راہنمائى حاصل كرتے ہیں، كیونكہ وہ امت سے اللہ تعالى اور اس كے رسول كی مراد كو سب سے زیادہ جاننے والےہیں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ نے سچ فرمایا: وہ نبی كریم صلى اللہ علیہ وسلم كے صحابہ كرام كی صفت بیان كرتے ہوئے كہتے ہیں: ) تم میں جو كوئی بھی كوئی طریقہ اختیار كرنا چاہتا ہے تو وہ فوت شدگان كے طریقہ پر چلے كیونكہ زندہ شخص سے فتنہ كا ڈر رہتا ہے، نبی كریم صلى اللہ علیہ وسلم كے صحابہ اس امت كے سب سے نیك دل اور علمى گہرائى ركھنے والے اور سب سے كم تكلف كرنے والے تھے وہ ایسى قوم تھے جنہیں اللہ تعالى نے اپنا دین پھیلانے كے لیے اور اپنے نبى كی صحبت كے لیے چن ركھا تھا لھذا ان كے حق كو پہچان كرو اور ان كے طریقہ پر چلو كیونكہ وہ صراط مستقیم پر تھے( اور اس مسئلہ میں جو كوئی بھی امت كے سلف كے طریقہ سے ہٹا اس نے غلطى كی اور گمراہ ہو گیا، اور اس نے مومنوں كے علاوہ دوسرے راستے كی پیروی كی اور مندرجہ ذیل فرمان باری تعالى میں جو وعید ہے اس كا مستحق ٹھرا: فرمان بارى تعالى ہے: جو شخص باوجود راہ ہدایت كے واضح ہو جانے كے بھى رسول صلى اللہ علیہ وسلم كی مخالفت كرے اور تمام مومنوں كی راہ چھوڑ كر چلے ہم اسے ادھر ہى متوجہ كردیتے ہیں جدھر وہ خود متوجہ ہوا اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور پہنچنے والى یہ بہت برى جگہ ہے) النساء:115) اور اللہ تعالى نے ہدایت كے لیے یہ شرط لگائى ہے كہ ایمان اس طرح كا ہونا چاہئے جس طرح كا ایمان نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم كے صحابہ كرام لائے تھےاس كو بیان كرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمایا: اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو پھر وہ ہدایت یافتہ ہیں) البقرۃ:137) لھذا جو بھی سلف كے طریقہ سے ہٹا اور دور ہوا تو اس كی ہدایت میں مقدار سے نقص پیدا ہوا جتنا وہ سلف كے راستے سے دور ہوا . تو اس بنا پر اس مسئلہ اور باب میں یہ واجب اور ضروری ہے كہ اللہ تعالى نے جو اپنے لیے ثابت كیا ہے یا نبی كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالى كے لیے جو اسماء و صفات ثابت كیے ہیں وہ ثابت كیے جائیں اور كتاب و سنت كی نصوص كو اس میں ظاہر پر ہی رہنے دیں ، اور ان پر اس طرح ایمان لائیں جس طرح صحابہ كرام ایمان ركھتے تھے، امت میں سب سے افضل اور زیادہ علم ركھنے والے ہیں. لیكن یہ جاننا بھی ضروری اور واجب ہے كہ یہاں چار ممنوعات یا محذورات ہیں جو كوئی بھی ان میں پڑ گیا اس كا اللہ تعالى كے اسماء وصفات پر اس طرح ایمان نہیں جس طرح ایمان لانا واجب ہے، اور جب تك یہ ممنوعات یا محذورات سے بچا نہ جائے اور ان كی نفى نہ ہو اس وقت تك اسماء وصفات پر ایمان صحیح نہیں ہوتا وہ چار محذورات یہ ہیں: تحریف، تعطیل، تمثیل، اور تكییف: اسی لیے ہم نے اللہ تعالى كےاسماء وصفات پر ایمان كے معنى میں كہا تھا اسماء و صفات پر ایمان یہ ہے كہ: ) اللہ تعالى نے اپنى كتاب میں جو كچھ اپنے لیے اسماء و صفات ثابت كیے ہیں یا رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم كی سنت نے ان پر اس طرح ایمان لانا جو اللہ تعالى كی شایان شان ہے بغیر كسی تحریف اور كیفیت اورمثال بیان كیے اور نہ ہى انہیں معطل كیا جائے( چار محذورات کا بیان ذیل میں ہم ان چاروں محذورات كا بیان كرتے ہیں: التحریف اس سے كتاب و سنت كی نصوص كے معانى كو بدلنا مراد ہے كہ انہیں اس حقیقى معنى سے جس پر یہ نصوص دلالت كرتى ہیں بدل كر كسی دوسرے معنى میں لے جانا، كہ ان اسماء اور صفات كو كسی اور معنى میں بیان كرنا جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے وارد نہیں. اس کی مثال یہ ہے كہ : تحریف كرنے والوں نے ید ہاتھ جو كہ بہت سی نصوص سے ثابت ہے كو ہاتھ كے معنى سے بدل كر اسے نعمت اور قدرت كے معنى میں لیا ہے. التعطیل تعطیل سے مراد اللہ تعالى سے اس كے سب اسماء حسنى اور بلند صفات كی نفى یا اس میں سے كچھ كی نفى ہے. لھذا جس نے بھی اللہ تعالى سے اس كے كسی اسم یا صفت كی نفى كی جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں اس كا اللہ تعالى كے اسماء اور صفات پر ایمان صحیح نہیں. التمثیل یہ اللہ تعالى كی صفات كو مخلوق كی صفات سے مثال دینا، مثلا یہ كہنا كہ: اللہ تعالى كا ہاتھ مخلوق كے ہاتھ كی مثل ہے، یا اللہ تعالى مخلوق كی مثل سنتا ہے، یا اللہ تعالى عرش پر اس طرح مستوى ہے جس طرح انسان كرسى پر مستوى ہوتا ہے. اسی طرح دوسرى صفات میں.اور اس میں كوئی شك نہیں كہ اللہ تعالى كی صفات كو اس كی مخلوق كی صفات كے ساتھ ملانا اور تشبیہ دینا ایك برائی اور باطل كام ہے.فرمان بارى تعالى ہے: اس كی مثل كوئی نہیں اور وہ سننےوالا دیكھنے والا ہے)الشورى:11) التكییف یعنى كیفیت بیان كرنا: یہ اللہ تعالى كی صفات كی كیفیت اور حقیقت كی تحدید كرنا، انسان اپنے دل كے اندازے یا زبان كےساتھ قول سے اللہ تعالى كی صفت كی كیفیت كی تحدید كرے. اور یہ قطعى طور پر باطل ہے، اور كسی بشر كے لیے اس كا جاننا ممكن ہى نہیں. فرمان بارى تعالى ہے: اور اس كے علم كا احاطہ كر ہى نہیں سكتے) طہ:110) لھذا جس نے بھى یہ چاروں امور مكمل كرلیے اور ان سے دور رہا تو اس كا ایمان صحیح اور مكمل ہے. اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمیں اس ایمان پر ثابت قدم ركھے اور اسى پر موت دے. واللہ اعلم . اور دیکھیے اللہ ، ایمان، رسول، توحید،اسماء حسنی وغیرہ حوالہ جات رسالۃ شرح اصول الایمان تالیف: شیخ محمد بن صالح العثیمین |