اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا علم تمام علوم میں سب سے اعلی اور اشرف علم ہے، اسى لیے علماء نے فرمایا: اللہ تعالی کی صفات کا باب، اسلام کے ابواب میں سب سے اہم ، معرفت الہی میں سب سے اشرف واکرم اور تمام علوم میں سب سے اعظم علم ہے، ابن القيم رحمہ اللہ نے فرمایا: بندہ کی تمام تر سعادت اللہ تعالی کی ذات وصفات کی معرفت کے ساتھ قائم ہے،اور اس کے برعکس اسماء وصفات سے لاعلمی اور جہل اصل شقاوت اور محرومی ہے،قوام السنۃ اصفہانی رحمہ اللہ بعض علماء کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سب سے پہلا فرض جسے اللہ تعالی نے اپنی مخلوق پر فرض کیا ہےوہ اس کی معرفت ہے، پس جب لوگ اللہ تعالی کو جان لیں گیں تو خود بخود صرف اسی کی بندگی کرنے لگیں گے، فرمان باری تعالی ہے: سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں(محمد: 19)، لہذا ایک مسلمان پر يہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء حسنی کو جانے ، اس کی تفسیر کا علم حاصل کرے جس کے ذریعہ وہ اللہ تعالی کی حقیقی تعظیم کرنے لگے…(الحجۃ فی بیان المحجۃ: 1/133،134)۔
قرآن
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ (الاعراف: 180)
فرمان بارى تعالى ہے: کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے۔(الاسراء: 110)
نىز فرمان باری تعالی ہے: وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، چھپے کھلے کا جاننے والا مہربان اور رحم کرنے والا، وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاه، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں، وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا ، صورت بنانے والا ، اسی کے لیے (نہایت) اچھے نام ہیں، ہر چیز خواه وه آسمانوں میں ہو خواه زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہی غالب حکمت والا ہے۔(الحشر: 22-24)
حدیث
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوےنام ہیں ،سو سے ایک کم ،جس نے انہیں سیکھا اور انہیں یاد کیا اور ان پر عمل کیا وہ جنت میں جائے گا۔( صحیح بخاری: 2736 ،صحیح مسلم: 7762)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :حدیث میں لفظ "احصاء" استعمال ہوا ہے اس کے مندرجہ ذیل معانی ہیں:
-1ان کو حفظ کرنا
2۔ان کے معانی کو جاننا
3 ۔ان اسماء کاجو تقاضا ہے اس پر عمل کرنا، جب اس بات کا علم ہو کہ اللہ تعالیٰ الاحد ہے تو اس کےساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ،اورجب یہ علم ہوکہ اللہ تعالیٰ الرزاق ہےتواس کےعلاوہ کسی سےبھی روزی طلب نہ کی جائے ،اورجب اس کاعلم ہوکہ اللہ تعالیٰ الرحیم ہےتواس کی رحمت سےناامید نہیں ہونا چاہیے،اوراسی طرح دوسرےاسماءکےبارے میں بھی۔
4۔اللہ تعالیٰ کے ان اسماء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں اسے اسی ناموں کے سا تھ پکارو ) اور وہ اس طرح کہ یہ کہا جائےاے رحمٰن! تورحم کرنےوالاہےمیرےحال پررحم کر،اوراے غفور!توبخشنے والاہے میرے گناہ بخش دے ، اور اے تواب! تو توبہ قبول کرنے والا ہے میری توبہ قبول فرما ، اور اسی طرح دوسرے اسماءکے ساتھ بھی ۔ (بدائع الفوائد لابن قیم : 1/ 164)
اللہ تعالى كے اسماء و صفات پر ايمان
اللہ تعالى نے جو كچھ اپنى كتاب عزيز ميں اپنے ليےاسماء وصفات ثابت كیے ہیں اور سنت نبويہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ تعالى كے ليے جو اسماء وصفات بيان كيے ہيں انہيں بغير كسی تحريف اور اور تمثيل اور بغير كوئی كيفيت بيان كيے اور اس كی تاويل اور انہيں معطل كيے بغير ان پر ايمان ركھنا اور انہيں ثابت كرنا.اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:اور اللہ تعالى كے ليے ہى اچھے اچھے نام ہيں تم اسے انہيں ناموں سے پكارو اور جو لوگ اس كے ناموں ميں الحاد كرتے ہيں انہيں چھوڑ دو عنقريب انہيں ان كے اعمال كي سزا دى جائے گى( الاعراف:180)۔ يہ آيت اللہ تعالى كے اسماء حسنى كےاثبات كی دليل ہے اور ايك دوسرے مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:اسی كی بہترين اور اعلى صفت ہے آسمانوں اور زمين ميں بھى اور وہى غلبے والا اور حكمت والا ہے( الروم:27).يہ آيت اللہ تعالى كی صفات كمال كے اثبات كی دليل ہے، كيونكہ المثل الاعلى یعنى كامل اور اكمل وصف ہے، تو دونوں آيتيں اللہ تعالى كے اسماء حسنى اور بلند صفات كو عمومى طور پر ثابت كرتى ہيں، اور كتاب و سنت ميں اس كی تفصيل بہت زيادہ ہے.
اسماء وصفات کے باب میں چار محذورات
تحریف، تعطیل، تمثیل اور تکییف۔
التحریف: اس سے كتاب و سنت كی نصوص كے معانى كو بدلنا مراد ہے كہ انہیں اس حقیقى معنى سے جس پر یہ نصوص دلالت كرتى ہیں بدل كر كسی دوسرے معنى میں لے جانا، كہ ان اسماء اور صفات كو كسی اور معنى میں بیان كرنا جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے وارد نہیں. اس کی مثال یہ ہے كہ : تحریف كرنے والوں نے ید ہاتھ جو كہ بہت سی نصوص سے ثابت ہے كو ہاتھ كے معنى سے بدل كر اسے نعمت اور قدرت كے معنى میں لیا ہے.
التعطیل: تعطیل سے مراد اللہ تعالى سے اس كے سب اسماء حسنى اور بلند صفات كی نفى یا اس میں سے كچھ كی نفى ہے.
لھذا جس نے بھی اللہ تعالى سے اس كے كسی اسم یا صفت كی نفى كی جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں اس كا اللہ تعالى كے اسماء اور صفات پر ایمان صحیح نہیں.
التمثیل: یہ اللہ تعالى كی صفات كو مخلوق كی صفات سے مثال دینا، مثلا یہ كہنا كہ: اللہ تعالى كا ہاتھ مخلوق كے ہاتھ كی مثل ہے، یا اللہ تعالى مخلوق كی مثل سنتا ہے، یا اللہ تعالى عرش پر اس طرح مستوى ہے جس طرح انسان كرسى پر مستوى ہوتا ہے. اسی طرح دوسرى صفات میں.اور اس میں كوئی شك نہیں كہ اللہ تعالى كی صفات كو اس كی مخلوق كی صفات كے ساتھ ملانا اور تشبیہ دینا ایك برائی اور باطل كام ہے.فرمان بارى تعالى ہے: اس كی مثل كوئی نہیں اور وہ سننےوالا دیكھنے والا ہے)الشورى:11(
التكییف: یعنى كیفیت بیان كرنا: یہ اللہ تعالى كی صفات كی كیفیت اور حقیقت كی تحدید كرنا، انسان اپنے دل كے اندازے یا زبان كےساتھ قول سے اللہ تعالى كی صفت كی كیفیت كی تحدید كرے. اور یہ قطعى طور پر باطل ہے، اور كسی بشر كے لیے اس كا جاننا ممكن ہى نہیں. فرمان بارى تعالى ہے: اور اس كے علم كا احاطہ كر ہى نہیں سكتے) طہ : 110(
نوٹ:جس نے بھى یہ چاروں امور مكمل كرلیے اور ان سے دور رہا تو اس كا ایمان اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں صحیح اور مكمل ہے. (رسالۃ شرح اصول الایمان: شیخ محمد بن صالح العثیمین)
اللہ تعالی کے اسماء حسنی کو جاننے کی اہمیت
اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی معرفت کی بہت زیادہ اہمیت ہے:
1. یہ کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے اسماء حسنی اور صفات کا علم مطلق طور پر سب سے اعلی اور اشرف علم ہے ، کیونکہ علم کا شرف معلوم یعنی جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے اس کے شرف سے ثابت ہوتا ہے ، اور اس علم میں جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے اسماء وصفات کا علم ہے ، تو اس علم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی فہم حاصل کرنا بندے کے لئے سب سے اعلی اور اشرف کام ہے ۔
اور اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ہی واضح طور پر بیان فرما دیا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے بیان کرنے کے اہتمام کی بنا پر ہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم جمیعا نے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا جس طرح کہ بعض دوسرے احکام میں اختلاف کیا ہے ۔
2. یہ کہ اللہ تعالی کی معرفت اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی محبت اختیار کی جائے ، اوردل میں اسی کا خوف رکھا جائے اور ، اور اسی سے امیدیں وابستہ کی جائيں ، اور اسی اللہ تعالی کے لئے ہی اپنے اعمال کی خالص کیا ج جائے ، جو کہ سعادت اور عین عبادت ہے ، اور اللہ تعالی کی معرفت اس وقت ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی معرفت حاصل ہو اوران کے معانی کوسمجھا جائے ۔
3. اوراللہ تعالی کی اسماء حسنی ساتھ معرفت ایمان میں زیادتی کا باعث ہے ، شیخ عبدالرحمان بن سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کہ:اللہ تعالی کے اسماء حسنی پر ایمان لانا اور ان کی معرفت توحید کی تینوں اقسام : توحید ربوبیت اور توحید الوھیت اور توحید اسماء وصفات کومتضمن ہے ، اور یہ اقسام ایمان کی روح اور خوشی ہے ، اور روح کا معنی دل کوغمی سےخوشی اور راحت ہے، اور یہ ایمان کی اصل اور اس کی غایت ہے ، لھذا بندے اللہ تعالی کے اسماء حسنی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ اور یقین قوی ہوگا ( التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان للسعدی ص 41)
4. اللہ تبارک وتعالی نے مخلوق پیدا ہی اس لئے کی ہے کہ وہ اسے پہچانیں اور اس کی عبادت کریں ، اور یہی وہ چیز ہے جو کہ ان سے انتہائی مطلوب ہے ۔ اس لئے کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے:رسولوں کی دعوت کا لب لباب اور اس کی کنجی معبود برحق کی معرفت وپہچان اس کے اسماءوصفات اور افعال کے ساتھ ہے ، اوراسی معرفت پر رسالت کی شروع سے لیکر آخر تک بنیاد اور دارو مدار ہے ( الصواعق المرسلۃ علی الجھمیۃ والمعطلۃ لابن قیم رحمہ اللہ:1/ 150- 151)
توبندے کااللہ تعالی کی معرفت میں مشغول ہونا اس کام میں مشغول ہونا ہے جس کے لئےاللہ تعالی نے اسے پیدا فرما یا ہے ، اور اسے ترک و ضائع کرنا ایساکام ہے جس کے لئے بندہ پیدا کیا گیا ہے اسے نہ کرنا ہے ، اورایمان کا معنی یہ نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیا جائے اوراس کی معرفت اور علم حاصل نہ کیا جائے ، اس لئے کہ حقیقت ایمان یہ ہے کہ بندہ اپنے اس رب کوجانے اور پہچانے اور اس کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، اور اسے اللہ تعالی کی معرفت اسماء وصفات کے ساتھ حاصل کرنے میں کوشش کرنی چاہئے ، لہذااسے جتنی اللہ تعالی کی معرفت ہوگی اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔
5. اللہ تعالی کے اسماء حسنی کا علم حاصل کرنا ہر معلوم کے ساتھ علم کا اصل ہے ، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے: بیشک اللہ تعالی کے اسماء حسنی کا علم ہرمعلوم چیز کے علم کی اساس اوربنیاد ہے ، لھذا یہ معلومات اس کے سوا ہے یا تو اللہ تعالی کی مخلوق ہوگی یا پھر اس کا امر ، اوریا اس چیز کا علم ہوگا جس کی اللہ تعالی نے تکوین کی ہے ،اور یا اس کا علم ہوگا جواس نے مشروع کیا ہے ، اور خلق اور امر کےعلم کا مصدر اللہ تعالی کے اسماء حسنی ہیں ، اوریہ دونوں ( خلق و امر )اسماء کے ساتھ ایسے مرتبط ہے جس طرح کہ تقاضا کی گئ چیز کا ارتباط تقاضا کرنے والے کے ساتھ ہو، اوراسماء حسنی کا شمار ہرمعلوم کے جاننے کا اصل ہے ، اس لئے کہ معلومات اس کا تقاضا ہیں اور ان سے مرتبط ہیں ۔ (بدائع الفوائد لابن قیم : 1/ 163 ، کتاب اسماء اللہ الحسنی: 6 -7)
اللہ تعالی کے صرف ننانوے اسمائے حسنی نہیں ہیں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مے فرمایا: (اللہ تعالی کے ننانوے [یعنی]ایک کم سو نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا)(صحیح بخاری :2736، صحیح مسلم :2677)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کسی شخص کو کوئی دکھ ، یا غم لاحق ہو تو وہ کہے: اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَ صَدْرِي ، وَجِلَاءَ حُزْنِي ، وَذَهَابَ هَمِّي)
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ تو قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔
اللہ تعالی اس کے سب دکھڑے اور غم مٹا دیتا ہے، اور اسکی مشکل کشائی فرماتا ہے۔ تو کسی نے کہا: رسول اللہ! کیا ہم یہ دعا سیکھ نہ لیں؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، جو بھی اسے سنے اسے چاہئے کہ اس دعا کوسیکھ لے۔(مسند أحمد: 3704، سلسلہ صحیحہ: 199)
نوٹ:اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ اسمائے حسنی ایسے بھی ہیں جنہیں اللہ نے اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے، اور اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی انکا علم نہیں ہے، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ اسمائے حسنی کی تعداد صرف ننانوے نہیں ہےبلکہ اس سے زیادہ ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: "حدیث کے اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسمائے حسنی ننانوے سے زیادہ ہیں"(مجموع الفتاوى :6/374)۔اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: "خطابی وغیرہ کا کہنا ہے کہ: اسکا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے کچھ نام ایسے ہیں جو اللہ نے کسی کو نہیں بتلائے، اور حدیث (اللہ تعالی کے ننانوے نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا) کا مطلب بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہنے والا کہے: "میرے پاس صدقہ کیلئے ہزار درہم ہیں"چاہے اس کے پاس ہزار درہم سے زیادہ مال موجود ہو، پھر اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں فرمایا: اللہ تعالی کے اسمائے حسنی ہیں، انکے واسطے سے اللہ کو پکارو۔ چنانچہ اللہ تعالی نے مطلقا اسمائے حسنی کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا، اور یہ نہیں کہا کہ: اسمائے حسنی صرف ننانوے ہی ہیں" (مجموع الفتاوی:22/482)
امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے، اور کہا: "تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں اسمائے حسنی کی تعداد کے بارے میں حد بندی بیان نہیں کی گئی، چنانچہ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی کے ننانوے ناموں کے علاوہ کوئی نام ہی نہیں، بلکہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو ننانوے نام یاد کریگا وہ جنت میں جائے گا، چنانچہ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ ننانوے نام یاد کرنے والا جنت میں جائے گا، جبکہ ناموں کی تعداد ذکر کرنا مقصود نہیں ہے" (شرح النووى لصحىح مسلم: 9/5)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اللہ کے نام لا تعداد وبےشمار ہیں، اس بات کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو کہ صحیح ثابت ہے: (اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ)…پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ)چنانچہ جو چیز اللہ کے علم غیب میں محفوظ ہو اسکے بارے میں جاننا نا ممکن ہے، اور جو چیز معلوم نہ ہو اسکو شمار نہیں کیا جاسکتا۔جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی کے ننانوے -یعنی-ایک کم سو نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا)،اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے ننانوے کے علاوہ نام ہی نہیں ہیں، بلکہ اسکا مطلب ہے کہ جس شخص نے اللہ کے ناموں میں سے ننانوے نام یاد کئے تو وہ جنت میں داخل ہوگا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (مَنْ أَحْصَاهَا)پہلے ہی جملے کی تکمیل ہے، علیحدہ سے نیا جملہ نہیں ہے ، مترجم] اور یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہے: "میرے پاس سو گھوڑے ہیں جو میں نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کیلئے تیار کئے ہیں" اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسکے پاس صرف سو ہی گھوڑے ہیں، بلکہ اسکا مطلب ہے کہ یہ سوگھوڑے جہاد کیلئے تیار کئے گئے ہیں" (مجموع فتاوى ابن عثيمين :1/122)۔
اسماء حسنی کا فہرست
نوٹ:یہ ننانوے اسماءِ حسنیٰ کی فہرست شیخ دکتور عبدالرزاق الرضوانی اور شیخ دکتور محمد بن خلیفہ التمیمی اثابھما اللہ کی کتاب سے ماخوذ ہے۔
شمار | اسماء حسنیٰ | ترجمہ | حوالہ جات | | شمار | اسماء حسنیٰ | ترجمہ | حوالہ جات |
1. | الرَّحْمٰنُ | بڑا مہربان | 55:1 | 26. | الوِتْرُ | اکیلا | بخاری: 6410 |
2. | الرَّحِيۡمُ | نہایت رحم کرنے والا | 41:2 | 27. | الجَمِيۡلُ | حسن والا | مسلم: 91 |
3. | المَلِكُ | بادشاہ | 59:23 | 28. | الحَيِيُّ | باحیا | ابو داؤد: 4012 |
4. | القُدُّوۡسُ | نہایت پاک | 59:23 | 29. | السِّتِّيْرُ | پردہ ڈالنے والا | ابو داؤد: 4012 |
5. | السَّلَامُ | سلامتی دینے والا / عیبوں سے پاک | 59:23 | 30. | الكَبِيۡرُ | کبریائی والا | 13:9 |
6. | المُؤْمِنُ | امن دینے والا | 59:23 | 31. | المُتَعَالُ | بلند | 13:9 |
7. | المُهَيْمِنُ | نگہبان/غالب | 59:23 | 32. | الوَاحِدُ | ایک | 13:16 |
8. | العَزِيۡزُ | غالب | 59:23 | 33. | القَهَّارُ | غلبہ والا | 13:16 |
9. | الجَبَّارُ | زور آور/زبردست | 59:23 | 34. | الحَقُّ | حق | 24:25 |
10. | المُتَكَبِّرُ | بڑائی والا | 59:23 | 35. | المُبِيۡنُ | واضح کرنے والا | 24:25 |
11. | الخَالِقُ | پیدا کرنے والا | 59:24 | 36. | القَوِيُّ | طاقتور | 11:66 |
12. | البَارِئُ | وجود بخشنے والا | 59:24 | 37. | المَتِيۡنُ | زور آور | 51:58 |
13. | المُصَوِّرُ | صورت بنانے والا | 59:24 | 38. | الحَيُّ | زندہ | 20:111 |
14. | الأَوَّلُ | اول | 57:3 | 39. | القَيُّوۡمُ | جو خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھا ہوا ہے | 20:111 |
15. | الآخِرُ | آخر | 57:3 | 40. | العَلِيُّ | بلند | 42:4 |
16. | الظَّاهِرُ | سب سے اونچا جس پر کوئی نہیں | 57:3 | 41. | العَظِيۡمُ | عظمت والا | 42:4 |
17 | البَاطِنُ | باطن | 57:3 | 42. | الشَّكُوۡرُ | قدردان | 35:30 |
18. | السَّمِيۡعُ | سننے والا | 42:11 | 43. | الحَلِيۡمُ | بردبار | 2:225 |
19. | البَصِيۡرُ | دیکھنے والا | 42:11 | 44. | الوَاسِعُ | کشادہ | 2:115 |
20. | المَوْلٰى | مالک اور مددگار | 8:40 | 45. | العَلِيۡمُ | باخبر | 2:115 |
21. | النَّصِيۡرُ | بہت مدد کرنے والا | 8:40 | 46. | التَّوَّابُ | بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا | 2:37 |
22. | العَفُوُّ | درگزر کرنے والا/معاف کرنے والا | 4:149 | 47. | الحَكِيۡمُ | نہایت حکمت والا | 2:129 |
23. | القَدِيۡرُ | قدرت والا | 4:149 | 48. | الغَنِيُّ | بے نیاز | 6:133 |
24. | اللَّطِيۡفُ | باریک بیں/لطف و کرم والا | 67:14 | 49. | الكَرِيۡمُ | کرم کرنے والا | 82:6 |
25. | الخَبِيۡرُ | بڑا با خبر | 67:14 | 50. | الأَحَدُ | یکتا | 112:1 |