اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ دین اسلام میں عورت کواتنا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہوا ہے جواسے اسلام سے پہلے کسی مذہب یا کسی قوم میں حاصل نہیں ہواتھا ۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں اور دیکھیں، تو معلوم ہوگا کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب ومکروہات کو جھیلتی رہی ہے، جس کے باوجود اسے معاشرہ میں نہ تو کوئی حیثیت ملی اور نہ ہی کوئی مقام ملا،کہیں اسے نیلام کا مال بنا کر خرید وفروخت کیا گیا، کہیں دیوی اور دیوتاؤں کو اسے بھینٹ بنا کر چڑھایا گیا، کہیں اسے جان بر بوجھ سمجھ کر زندہ دفن کردیا گیا تو کہیں اسے گھر اور معاشرہ کے لیے منحوس بتا کر تنہائی کے سپرد کر دیا گیا۔ عورت کی یہی حالت اور وقعت معاشرہ اور مردوں کے نزدیک رہی حتی کہ اسلام کا ابرِ رحمت برسا اور اس کی حیثیت کو یکدم بدل کر رکھ دیا۔ محسنِ انسانیت رحمۃ للعالمین محمد ﷺ کی آمد عورت پر یہ احسان کی کہ ظلم، بے حیائی، رسوائی، تباہی وبربادی سے بچا کر اسے تحفظ، عزت، سربلندی، مقام ومرتبہ سے نوازا، اور اس کے حقوق کو بھی اجاگر کیا۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سےاس کے فرائض وواجبات بتلائے اور اسے اپنے گھر و خانہ کی سب سے اعلی وبلند منزل پر فائز کیا جہاں اسے باپ، بھائی، شوہر، اولاد اور خاندان والوں کی محبت حاصل ہوئی اور اس کے حقوق واختیارات بھی محفوظ ہوئے۔ دین اسلام میں عورت کا مقام دین اسلام نے انسان کوجوعزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عوت دونوں برابر کےشریک ہیں ، اوروہ اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات میں برابرہیں اوراسی طرح دار آخرت میں اجرو ثواب میں بھی برابر ہیں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا ہے:اوریقینا ہم اولاد آدم کوبڑی عزت دی ۔ ( سورۃ الاسراء : 70 ) اللہ عزوجل کا ایک جگہ پرفرمان کچھ اس طرح ہے:ماں باپ اورعزیزواقارب کے ترکہ میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی اس میں حصہ ہے جوماں باپ اورعزیزو اقارب چھوڑ کرمریں ۔ (سورۃ النساء : 7) نیز اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:اورعورتوں کے لیے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائ کے ساتھ ۔ ( سورۃ البقرۃ : 228 ) نیز فرمایا:مومن مرد و عورتیں آپس میں ایک دوسرے ( مدد گارو معاون اور) دوست ولی ہیں۔ (سورۃ التوبۃ: 71 ) نیز والدین کے متعلق اس طرح فرمایا: اورآپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو ، اورماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان کے آگے اف تک نہیں کہنا اورنہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا ۔ اورعاجزی اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اوردعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان پربھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔ (سورۃ الاسراء : 23 - 24 ) اورفرمان باری تعالی ہے:پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوخواہ وہ مرد ہویا عورت ہرگز ضائع نہیں کرونگا ۔ (سورۃ آل عمران :195 ) اللہ جل شانہ نے فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:اورجوبھی نیک عمل کرے چاہے وہ مرد ہویا عورت لیکن وہ مومن ہوتو ہم اسے یقینا بہتر زندگی عطا فرمائیں گے ، اوران کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔ (سورۃ النحل : 97 ) ایک مقام پراس طرح فرمایا:اورجوبھی ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کرے چاہے وہ مرد ہویا عورت یقینا ایسے لوگ جنت میں جائیں گے ، اورکھجورکی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ۔ (سورۃ النساء :124 ) یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو عطا کیا ہے، جس کی مثال نہ تو کسی اوردین میں پائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی قانون میں مل سکتی ہے ۔ عورت کی مظلوم تاریخ رومن ( اٹلی ) جدت پسندوں نے تویہ قانون پاس کیا تھا کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوئے اس کی غلام ہے اوراس کے مطلقا کوئ حقوق نہیں ۔ اٹلی میں ایک بڑے اجتماع کےبعد عورت کے متعلق بحث ومناقشہ کے بعد یہ پاس کیا گیا کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارث نہیں بنےگی اوریہ پلید ہے ۔ جاہلیت میں توعورت ایک گھٹیا سی چیزتھی اسے بیچا اورخریدا جاتا اوراسے شیطانی پلیدی شمار کیا جاتا تھا ۔ اورقدیم ہندوستانی قوانین تویہاں تک کہتے ہیں کہ وبائیں اورموت جہنم اورآگ اورسانپوں کا زہر عورت سے بہتر ہے ، اوراسے زندہ رہنے کا حق صرف خاوند کے ساتھ ہی تھا اگرخاوند مرجائے اوراسے آگ میں جلایا جاتا توعورت بھی اس کے ساتھ ہی زندہ جل مرتی اوراگروہ خاوند کے ساتھ نہ جلتی تواسے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اوریہودیت میں یہودی عورت کا کیا حال تھا اگر ہم اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ: عہد قدیم میں یہ مندرجہ ذیل بات موجود ہے: میں اورمیرا دل حکمت وعقل کے علم اوراسے حاصل اورتلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تا کہ میں شرکوجوکہ جہالت اورحماقت کوجوکہ جنوں ہے معلوم کرسکوں ، تومیں نے موت کوپایا عورت جوکہ کھڑکی اوراس کادل تسمہ اوراس کے ہاتھ بیڑیاں ہیں ۔ (سفر الجامعۃ الاصحاح : 7 : 25 - 26 ) یہ تومعلوم ہی ہے کہ عہد قدیم پریہودی اورعیسائ دونوں کا ایمان ہے اوروہ اسے مقدس سمجھتے ہیں ۔ زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اوراورموجودہ اوراس سے پہلے ماضی قریب کے دورمیں عورت کوکیا کچھ حاصل ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کریں گے: ڈانمارک کا ایک مصنف(wieth kordsten ) عورت کے بارہ میں کیتھولک چرچ کےنقطہ نظرکی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے:دوروسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لیے کہ کیتھولک چرچ کےمذھب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے۔ 586 میلادی کوفرانس میں عورت کے بارہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اس بات پرغورکیا گیا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا کہ نہیں ؟ اوراس کانفرنس میں مناقشہ کرنے بعد یہ قرار پا یا کہ عورت ایک انسان ہے لیکن وہ مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئ ہے ۔ اورفرانسیسی قانون کی شق نمبر 217 میں مندرجہ ذیل بات کہی گئ ہے: شادی شدہ عورت ( اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پرہوئ ہوکہ اس کی اوراس کے خاوند کی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی ) کا کسی کے لیے ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اورنہ ہی وہ اپنی ملکیت کومنتقل کرسکتی اورنہ ہی اسے رہن رکھ سکتی ہے ، اورنہ ہی وہ عوض یا بغیرعوض اپنے خاوند کی معاھدے میں شرکت کے بغیر یا پھر اس کی موافقت جوکہ لکھی ہوئ ہوکے بغیر مالک بن سکتی ہے۔ اورانگلیڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پرکتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا ، حتی کہ 1850 میلادی تک عورتوں کوشہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اوران کے لیے 1882 میلادی تک کوئی کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔(کتاب : سلسلۃ مقارنۃ الادیان ۔ تالیف احمد شلبی :3 / 210 - 213 ) اوردورحاضرمیں یورپ اورامریکہ اوردوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جوصرف اورصرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جزء لا ینفصل ہے ، بلکہ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیے گئے ہیں اوراس کے جسم کوتجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گیا ہے ،اورمردوں نے اپنے بنائے ہوئےقانون سے اسے اپنے لیے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے ۔ اس کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب تک تووہ اپنے ہاتھ یا پھر فکروسوچ سے مال وغیرہ خرچ کرے اورجب وہ بڑی عمر کی ہوجائے اور اپنے حواس کھو بیٹھے اورکسی کو کچھ نہ دے سکے تومعاشرہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اوراسی طرح ادارے بھی اس کوچھوڑ دیتے ہیں اوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں زندگی گزارتی ہے یا پھر نفسیاتی ہسپتالوں میں ۔ ایک موازنہ دوسرے ادیان اور قوموں کے نزدیک عورت کے مقام کو جاننے کے بعداگر ہم اس کا مقارنہ اور موازنہ (حالانکہ اس میں کسی قسم کی برابری نہیں ) اس سے کریں جوقرآن مجید میں آیا ہے تو ہمیں دونوں کے درمیان جو زمین اور آسمان کا فرق ہے سمجھ آجائیگا۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مدد گارو معاون اور ) دوست ہیں ۔ (سورۃ التوبۃ :71) نیز فرمایا:اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائ کے ساتھ۔ (سورۃ البقرۃ : 228 ) اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:اورآپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو ، اورماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان کے آگے اف تک نہیں کہنا اورنہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا ۔ اورعاجزی اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اوردعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان بھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی ۔ (سورۃ الاسراء : 23 - 24 ) جب عورت کواس کے رب نے اسے یہ عزت واحترام دیا توساری بشریت کے لیے یہ بھی واضح کردیا کہ عورت کواس لیے پیدا کیا ہے کہ یاتووہ ماں کے روپ میں ہوگی، یا بیوی یا پھر بیٹی یا بہن کے روپ میں ، اوراس کے لیے خصوصی قوانین بھی مشروع کیے جوکہ صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں ۔ اور دیکھیے ماں کا مقام، بیٹی ایک نعمت، بیوی کے حقوق، عورت کا پردہ وغیرہ حوالہ جات الاسلام اصولہ ومبادؤہ تألیف ڈاکٹر محمد بن عبداللہ بن صالح السحیم |