اتباع سنت کی اہمیت سنت نبوی ﷺ دین کا ایک حصہ ہے، امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: سنت نوح عليہ السلام کی کشتی کے مانند ہے، جو شخص اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پائے گا اور جس نے اس کا انکار کیا وہ غرقآب ہوگا۔(مجموع الفتاوی:4/57)۔ نبی کريم ﷺ نے فرمایا: ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انکار کون کرے گا ؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا ۔(صحىح بخارى: 7280). اصول معتبرہ علمائے متقدمین اور متاخرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ احکام کے ثابت کرنے اور حلال و حرام کی توضیح کے لیے اصول معتبرہ چار ہیں۔ اولاً : کتاب اللہ العزیز(قرآن پاک) جس کے نہ آگے سے باطل آسکتا ہے نہ ہی پیچھے سے ۔ ثانیاً :سنت رسول ﷺ ،کیونکہ وہ اپنی نفسانی خواہش سے باتیں نہیں بتاتے ہیں،ان کا ارشاد وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔ ثالثاً : اجماع علمائے امت۔ رابعاً :قیاس :اگرچہ بعض علماء نے قیاس کے حجت ہونے میں اختلاف کیا ہےلیکن جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ جب قیاس میں تمام ضروری شرائط پائی جائیں تو وہ حجت ہے چنانچہ اس اصول پر بیشمار دلائل ہیں اور اتنے مشہور ہیں کہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ پہلی اساس (اصل) کتاب اللہ العزیز ہے پروردگار عالم کے کلام قرآن پاک کی بہت سی آیات اس کتاب کی اتباع اور تمسک کے وجوب و فرضیت اور اس کی حدود کے پاس وقوف اور رک جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ چناچہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے : تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو (الاعراف: 3) اور اللہ تعالٰی نے فرمایا:اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر وبرکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو (الانعام: 155) اور دوسرےمقام پر ارشاد باری تعالٰی ہے:تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے ،جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور راه راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے(المائدۃ: 15،16) اور اللہ کا ارشاد گرامی ہے:جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا، (وه بھی ہم سے پوشیده نہیں) یہ بڑی باوقعت کتاب ہے ، جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کرده حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے(الفصلت: 41،42) اور اللہ کریم فرماتے ہیں:اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں۔(الأنعام:19) اور فرمان الہٰی ہے کہ:یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے وه ہوشیار کر دیے جائیں۔(ابراهيم: 52) قرآن کریم میں اس معنی اور مفہوم کی بہت سی آیات ہیں،علاوہ ازیں بہت سی صحیح احادیث نبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں۔ جن میں قرآن پاک کی اتباع اور تمسک کا حکم دیا گیا ہے اور جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے قرآنی احکام پر عمل کیا وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جس نے ان احکام سے منہ موڑا وہ گمراہ ہوا۔ اور اُن احادیث میں جو نبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں وہ خطبہ ہے جو آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دیا، اس میں آپ ﷺ نے فرمایا:میں تمہارےدرمیان وہ چیز چھوڑے جارہاہوں،اگرتم اس پر عامل رہے تو ہرگزگمراہ نہ ہوگے ، وہ اللہ کی کتاب ہے۔(صحيح مسلم: 1218) اور صحیح مسلم ہی میں نبی پاک ﷺ سے دوسری روایت مروی ہے:سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کی میں تمہارے درمیان دو قیمتی اور نفیس چیزیں چھوڑے جارہاہوں، ان دونوں میں سے پہلی کتاب اللہ ہے ،جس میں ہدایت اور نور ہے،پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لواور اس پر مضبوطی سے عمل کرو اور دوسری میرے اہل بیت ،میں تمہیں اپنے اہل بہت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہل بہت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں۔(صحيح مسلم: 2408) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا'' فی القرآن'' اور وہ اللہ کی رسی ہے ، جس نے اسے مضبوطی سے پکڑلیا، ہدایت یافتہ ہوا، اور جس نے اسے چھوڑ دیا گمراہ ہوا۔ اس موضوع پر احادیث بہت زیادہ ہیں، اور اس سلسلے میں ان دلائل کو طوالت سے ذکر کرنے کے مقابلے میں جو قرآن پر عمل کے وجوب کو ثابت کرتے ہیں ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لیکر آج تک کے اہل علم اور اہل ایمان کا س بات پر اجماع کافی و شافی ہے کی نہ صرف کتاب اللہ پر عمل واجب ہے بلکہ تمام امورمیں کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنت رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فیصلے ہوں گے اور حاصل کیے جائیں گے اور کتاب سنت کی حکمرانی ہو گی۔ دوسری اساس (اصل) سنت رسول ﷺ ہے تین متفق علیہ اصولوں میں سے دوسری اصل اور بنیاد وہ ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ سے آپ کے اقوال یا افعال یا تقریر کی شکل میں صحیح طریقے سے ثابت ہے ، اسی کا نام '' حدیث '' ہے اور اسے ہی سنت کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لیکر آج تک تمام اہل علم نہ صرف اس اصل اصیل پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ وہ اسےحجت تسلیم کرتے ہیں اور امت کو اس کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور انہوں نے اس فن میں بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں اور اسول فقہ اور مصطلح الحدیث کی کتابوں میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔ سنت کے حجت ہونے پر اس قدر دلائل ہیں کہ ان کاشمار کرنا مشکل ہے۔ بعض دلائل وہ ہیں جن کاذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے،جن میں آپ ﷺ کی اطاعت اور پیروی کا حکم ہے اور یہ حکم آپ کے ہم عصر اور آپ کے بعد آنے والےسبھی لوگوں کے لیے ہے،اس لیے کی آپ سبھی کے لیے اللہ کے رسول (ﷺ ) ہیں اور قیامت تک کے تمام لوگ آپ کی اتباع اور پیروی کرنے کے پابند ہیں اور اس لیے کہ آپ اپنے اقوال،افعال اور تقریر کے ذریعے سے کتاب اللہ کے مفسر اور بیان کرنے والے ہیں۔ اگر سنت نہ ہوتی تو لوگوں کو نماز کی رکعات اور اس کے اوصاف و واجبات کا علم نہ ہوتا اور روزہ،زکوۃ اور حج کے احکام کی تفصیل معلوم نہ کرپاتے اور نہ ہی انہیں جہاد،امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے احکام کا پتہ چلتااور نہ ہی معاملات و محرمات سے آگاہ ہوتے اور نہ ہی انہیں اللہ تعالٰی کی طرف سے حدود و عقوبات میں جو امور ضروری ہیں ، ان کا علم ہوتا۔ اس سلسلے میں قرآن پاک کی بہت سی آیات ہیں جو کہ آپ ﷺ کی اتباع اور پیروی کے وجوب کو ثابت کرتی ہیں ۔ چناچہ سورة آل عمران میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے(آل عمران: 132) اور سورة النساء میں ارشاد باری تعالٰی ہے:اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔(النساء: 59) نیز سورة النساء ہی میں فرمان باری تعالٰی ہے:اس رسول (ﷺ) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا(النساء: 80) اور آپ ﷺ کی اطاعت کیسے ممکن ہے؟اورمتنازع فیہ امورکو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف کس طرح لوٹایا جا سکتا ہے ؟اگر سنت رسول ﷺ حجت نہ ہو یا پوری کی پوری غیر محفوظ ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو ایسی چیز کا حکم دیاجس کا وجود ہی نہیں اور یہ باطل ہے اور اللہ کی ذات سے بہت بڑے کفر کے مترادف ہے اور اس سے بد ظنی ہے اور اللہ تعالٰی نے سورة النحل میں ارشاد فرمایا:یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں(النحل: 44) اور سورة النحل ہی میں ارشاد ہے:اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وه اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان والوں کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے(النحل : 64) پس کیسے اللہ تعالٰی منزل الیہم (قرآن پاک) کی تبیین (تفسیر و تشریح) کا کام نبی پاک کے سپرد کر رہے ہیں ؟اگر آپ کی سنت کا وجود ہی نہیں اور وہ حجت نہیں اور سورة النور میں اللہ تعالٰی کا اسی طرح فرمان ہے:کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر ﻻزم کردیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے(النور: 54) اور اللہ تعالٰی نے اسی سورة النور میں ارشاد فرمایا:نماز کی پابندی کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے(النور: 56) اور سورة الاعراف میں ارشاد باری تعالٰی ہے:آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ(الأعراف:158) یہ آیات اس بات پرواضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ہدایت اور رحمت نبی کریم ﷺ کی اتباع اور پیروی میں ہے۔ اور ہدایت اور رحمت کا حصول آپ کی اتباع اور پیروی کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ یا یوں کہ کر کہ سنت صحیح نہیں ہے ،یا سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں ہے،انسان کیونکر ہدایت اور رحمت الٰہی کا مستحق ہوسکتا ہے؟َ اور اللہ تعالٰی نے سورة النور میں ارشاد فرمایا:سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے (النور: 63) اور سورة الحشر مین حکم ربانی ہے:اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے(الحشر: 7) اوراس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں اور سب کی سب نبی پاک ﷺ کی اتباع و فرمانبرداری اور جو کچھ آپ لیکر آئے ہیں، اس کی پیروی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں ،جیسا کی کتاب اللہ (قرآن پاک) اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کے وجوب اور اس کی اتباع اور پیروی کے فرض ہونے پر دلائل بیان ہوچکے ہیں۔ کتاب سنت دونوں ایسی اساس اور اصل ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ، جس نے ان میں سے کسی ایک کا انکار کیااس نے دوسری کو بھی انکار کیااور اسے جھٹلایااور یہ کفرو ضلال اور گمراہی ہے اور باجماع جملہ اہل علم و ایمان دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع و فرمانبرداری اور جو کچھ آپ لیکر آئےاس پر عمل کا واجب ہونا اور آپ ﷺ کی نافرمانی کا حرام ہونا،احادیث متواترہ سے ثابت ہے ،اور یہ سبھی لوگوں کے لیے ہے چاہے وہ آپ ﷺ کے زمانے میں ہون یا قیامت تک آپ کے بعد آنے والے ہوں ۔ان احادیث میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:''سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی''(صحيح البخاري: 7137، صحيح مسلم: 1835) اور صحیح بخاری میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے انکار کیا،تو پوچھا گیا، یا رسول اللہ ! وہ کون ہے جو انکار کرے گا؟ تو فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت مین داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کردیا۔(صحيح البخاري: 7280) احمد ، ابو داؤد اور حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل حدیث بیان کی ہے لکھتے ہیں:سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بیشک مجھے کتاب دی گئی ہے اور کتاب کے ساتھ اس کی مثل (حدیث کیونکہ وہ بھی وحی الٰہی ہے)، خبردار! قریب ہے کہ ایک شکم سیر آدمی اپنے گاؤ تکیے پر بیٹھا ہوا کہے گا کہ تم قرآن کو اپنے لیے ضروری سمجھو جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو کچھ حرام پاؤ اسے حرام سمجھو ۔(صحيح ابوداود: 4605، ) ابو داؤد اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ مندرجہ ذیل روایت نقل کی ہے:سیدنا ابی رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں نہیں پاؤں تم میں سے ایک کو جو اپنے تکیے پر ٹیک لگائےبیٹھا ہوگا،اور اس کے پاس میرے احکام میں سے ایک حکم آئے گا کہ میں نے اسے کرنے کا حکم دیا ہوگا یا کرنے سے روکا ہوگا تو وہ کہے گا، ہم نہیں جانتے(کیونکہ)جو ہم کتاب اللہ میں پائیں گے،اس کی پیروی کریں گے.(صحيح ابن ماجہ: 13 ) ایک دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے جسے حسن بن جابر نے سیدنا مقدام بن یکرب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ:'' فتح خیبر کے دن نبی پاک ﷺ نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا،پھر آپ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ تم میں سے ایک مجھے جھٹلائے اس حال میں کہ وہ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ہو کہ میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو کہے گا: کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ موجود ہےہم اس میں جو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو حرام پائیں گے اسے حرام جانیں گے،خبردار! جو رسول اللہ (ﷺ) نے حرام کیا ہے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے''(صحيح ابن ماجہ: 12) رسول اللہ ﷺ سے متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ اپنے خطبے میں صحابہ کرام کو وصیت فرماتے تھے کہ '' حاضر غائب کو پہنچا دے '' اور انہیں فرماتے تھے کہ '' بہت سے سننے والے پہنچانے والے کے مقابلے میں زیادہ یاد کرنے والے اور سمجھدار ہوتے ہیں''(صحيح البخارى: 1741، صحيح مسلم:1679 ) جیسا کی صحیحین میں ہے کی آپ ﷺ نے یوم عرفہ اور یوم نحر کو حجة الواداعکے موقع پر ارشاد فرمایا کہ:حاضر غائب کو پہنچا دے کیونکہ بہت سے سننے والے، پہنچانے والے کے مقابلے میں زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں''(صحيح البخارى: 1741، صحيح مسلم:1679 ) پس اگر آپ کی سنت سننے والے پر یا اس شخص پر جسے وہ پہنچی ہے ،حجت نہ ہوتی اور اگر آپ کی سنت قیامت تک باقی رہنے والی نہ ہوتی تو آپ اس کی تبلیغ کا حکم نہ دیتے۔ اس سے ثابت ہواسنت کے ذریعہ اس شخص پر حجت قائم ہے،جس نے اسے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سُنا اور اس شخص پر بھی جس کو یہ سنت صحیح اسناد سے پہنچی ہو۔ سنت رسول ﷺ کی حفاظت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی قولی اورفعلی سنت کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اسے اپنے بعد تابعین تک پہنچایااور انہوں نےاپنے بعد آنے والوں کو یہ امانت سپرد کی۔ حتٰی کہ ثقہ علماء قرناً بعد قرن اور نسلاً بعد نسل اس امانت کو ایک دوسرے تک منتقل کرتے چلے آئے اور ثقہ علماءنے سنت اور احادیث کی کتابوں کو جمع کیا۔ صحیح کو ضعیف سے الگ کیا،پھرصحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے ضابطے اور قوانین وضع کیے۔ اہل علم میں بخاری شریف اور مسلم شریف کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابیں متداول ہوئیں اور انہوں نے سنت کی یوں حفاظت کی جس طرح اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب عزیز کی ملحدوں کے الحاد،باطل پرستوں کی تحریف اور دین سے کھیلنے والوں کے کھیل سے حفاظت فرمائی جیسا کہ اس امر کی پختگی پر اللہ تعالٰی کا ارشاد دلالت کرتا ہے:ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں(الحجر:9) اس میں ذرہ برابر شک نہیں کی سنت رسول ﷺ بھی وحی منزل( اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ) ہے،اللہ تعالٰی نے اس کی بھی حفاظت کی ہے،جس طرح سے اس نے اپنی کتاب کی حفاظت فرمائی ہے ۔ اور اللہ تعالٰی نے اس کے لیے علماء کرام کی ایک جماعت کو توفیق بخشی کی وہ ایک نقاد کی حیثیت سےباطل پرستوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویلات فاسدہ کی تردید کریں اور ان تمام روایات کو جو جاہل اور جھوٹے لوگوں اور ملحدین نے سنت میں شامل کر دی تھیں،الگ کردیں کیونکہ اللہ تعالٰی نےاسے اپنی کتاب مبارک کی تفسیر بنایا ہے اور نہ ان احکام کی جو مجمل ہیں تشریح ہے ، جب کہ ایسے احکام کو بھی شامل ہے جن کا قرآن پاک میں ذکر نہیں ہوا ہے جیسا کہ دودھ پلانے کی احکام،میراث کے احکام ،بیوی اور اس کی پھو پھی کو نکاح میں جمع کرنے کے حرام ہونے کا حکم ، اسی طرح بیوی کے ساتھ اس کی خالہ کونکاح میں جمع کرنے کے حرام ہونے کا حکم ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں جن کا سنت صحیحہ میں تذکرہ ملتا ہے،جب کہ وہ قرآن پاک میں مذکور نہیں ہیں۔ صحابہ کرام،تابعین اور اُن کے بعد اہل علم کے نزدیک سنت کی عظمت اور اس پر عمل کا وجوب ''صحیحین میں سید نا ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عرب کے بعض قبیلے مرتد ہوگئے،اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ میں اس شخص سے جہاد کروں گا جس نے نماز اور زکوۃ کے درمیان تفریق ڈالی ۔ تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کس طرح جنگ کریں گے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہیں جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا اس نے مجھ سے اپنا جان ومال بچالیا مگر کسی حق کے عوض اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا زکوۃ اس کے (کلمہ کے) حق میں نہیں ہے؟ واللہ اگر انہوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دیتے تھے تو اس کے نہ دینے سے میں ان سے جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔''(صحيح البخارى: 1456، صحيح مسلم: 20) صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس پر ان کی پیروی کی اور مرتدین کے خلاف جہاد کیا۔ یہاں تک کہ انہیں دوبارہ اسلام میں داخل کیااور جن لوگوں نے اپنے ارتداد پر اصرار کیا انہیں قتل کردیا۔ اس قصے میں سنت کی تعظیم اور اس پر عمل کے واجب ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے۔ ایک ''' دادی'' سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی میراث کے بارے میں سوال کرتی ہے،آپ نے فرمایاکہ کتاب اللہ میں تو اس سلسلے میں کچھ وضاحت نہیں،اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کی رسول اللہ ﷺ نے آپ کے لیے کسی چیز کا فیصلہ کیا ہو،اور میں لوگوں سے اس بارے میں سوال کروں گا۔ چنانچہ آپ نے صحابہ کرام سے سوال کیا تو بعض صحابہ نے اس بات کی شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا تو آپ نے اس کے مطابق فیصلہ فرمادیا۔(ابوداود: 2894، ابن ماجہ: 541- اس حديث کو امام ابن ملقن نے صحيح کہا ہےاور حافظ ابن حجر کہتے ہی: إسناده صحيح لثقة رجاله، إلا أن صورته مرسل- اس حديث کی سند صحيح ہے کیونکہ اس کي رجال ثقات ہیں الاّ يہ کہ یہ مرسل کی طرح ہے، اور شيخ الالبانی نے اس کو ضعیف کہا ہے- * علماء کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ جدۃ (دادی) کو میراث میں سدس ملے گا (امام سرخسی أپنی کتاب المبسوط میں( 7 / 564 ) امام ابن قدامة المغني میں ( 7 / 54 ) امام ابن المنذر الإجماع میں( ص 34 ) اور امام شوكانيی نيل الأوطار میں ( 6 / 59 ))) سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے عاملوں کو وصیت فرمایا کرتے تھےکہ وہ لوگوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کریں،اگر کوئی معاملہ کتاب اللہ میں نہ پائیں تو پھر سنت رسول اللہ ﷺ کے ذریعےفیصلہ کیا جائے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عورت کے املاص (عورت کا اپنے پیٹ کے بچے کو کسی تعدی یا زیادتی کی وجہ سے گرادینا)کے حکم کے بارے میں اشکال پیدا ہواتو آپ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا تو آپ کے پاس محمد بن سلمہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنھما نے شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس معاملے میں ایک غلام یاباندی آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے خاوند کی وفات کے بعد عورت کے اپنے گھر میں عدت گزارنے کا مسئلہ پیش ہوا اور انہیں اس مسئلے میں اشکال پیش آیا تو انہیں فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنھا نے جو ابو سعید رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں،خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے خاوند کی وفات کے بعد انہیں حکم دیا تھا کی وہ اپنے خاوند کے گھر ٹھری رہیں یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی میعاد کو پہنچ جائے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے کے مطابق فیصلہ دیا۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ کے شراب پینے پر سنت کے مطابق حد کے نفاذ کا فیصلہ صادر فرمایا۔ جب سیدناعلی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ متعۃ الحج (تمتع) سے منع فرماتے ہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا اور ارشاد فرمایا کہ میں لوگوں میں سے کسی ایک ادمی کے قول کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کی سنت کو ترک نہیں کروں گا۔ اور جب کچھ لوگوں نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنھما کے قول کی بنیاد پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے سامنے تمتع کے مقابلے میں حج افراد کے افضل ہونے پر دلیل دی تو سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ارشاد فرمایا کہ '' قریب ہے تم پرآسمان سے پتھر برسیں میں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنھما) نے یہ بات کہی ہے''،اگر کسی شخص نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھماکے قول پر عمل کرتے ہوئےسنت کی مخالفت کی اور اس پر اللہ کے عذاب کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا،تو پھر اس شخص کا کیا حال ہوگاجس نے ان دونوں جلیل القدر صحابہ سے کم درجہ کے کسی آدمی کے قول یا محض اپنی رائے اور اجتہاد سے سنت کی مخالفت کی ہو؟ اور جب بعض لوگوں نےسیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے بعض سنتوں کے مقابلے میں تنازع کیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھمانے ارشاد فرمایا کی کیا ہم عمر (رضی اللہ عنہ) کی اتباع کے پابند ہیں !اور جب ایک آدمی نےسیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا آپ ہمیں کتاب اللہ بیان کیجئےاور وہ اس وقت حدیث (رسول ﷺ )بیان فرما رہے تھے،تو آپ یہ بات سن کر بہت ناراض ہوئےاور فرمایا کی سنت رسول اللہ کتاب اللہ کی تفسیر ہے،اگر سنت نہ ہوتی تو ہم نہ جانتے کہ ظہر کی چار رکعات،مغرب کی تین رکعات اور فجر کے دو فرض ہیں، اسی طرح سے دوسرے وہ تمام مسائل جن کی تفصیل سنت میں آئی ہے ان سے بے خبر رہتے! سنت کی مخالفت کرنے کی تحذیر سنت کی تعظیم ،اس کے وجوب اور اس کی مخالفت پر وعید و تحذیر کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بہت ہی زیادہ قضایا اور واقعات ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ ہے کہ جس وقت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بیان کی ا کہ '' اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں آنے سے مت روکو''! تو آپ کے کسی بیٹے نے کہا کہ''اللہ کی قسم !ہم انہیں ضرور روکیں گے'' تو سیدنا بن عمر رضی اللہ عنھما ناراض ہوئے اور اسے سخت ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ '' نبی ﷺ نے فرمایا ہے اور تو کہتا ہے کہ ہم ضرور روکیں گے'' اور جب عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہیں اپنے ایک رشتہ دار کو دیکھا کہ وہ (گوپھن،غلیل یا ہاتھ سے)کنکری پھینک رہا ہے تو اسے منع فرمایا کہ : '' رسول اللہ ﷺ نےکنکری پھیکنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نہ تو شکار کو لگتی ہے نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے لیکن یہ دانت توڑ دیتی ہے یا آنکھ پھوڑ دیتی ہے ''۔ پھر اس کے بعد اسے کنکری پھینکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : '' اللہ کی قسم ! میں تجھ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گا کیونکہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے کنکری پھینکے سے منع کیا،تم (یہ بات سن کر ) پھر یہ کام کرتے ہو '' ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے جلیل القدر تابعی ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب تم کسی کے سامنے سنت بیان کرو اور وہ کہے کہ '' اسے چھوڑو اور ہمیں (صرف)قرآن پاک سے (کوئی )خبر دو'' تو جان لو کہ وہ گمراہ ہے۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ سنت کتاب اللہ پر فیصلہ کرنے والی ہے ( مطلب اس کا یہ ہے کہ سنت رسول اللہ ﷺ کتاب اللہ کے اجمال کا بیان (تفصیل) ہے )،مطلق احکام کومقید کرنے والی ہے یا ان احکام کو بیان کرتی ہے جن کا ذکر کتاب اللہ میں موجود نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں(النحل: 44) اور نبی ﷺ کا قول اس سے پہلے گزر چکا کہ:''مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسکی مثل بھی(یعنی سنت)'' امام بیہقی رحمہ اللہ نے عامر شعبی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بعض لوگوں سے فرمایا کہ '' جس وقت تم نے آثار کو چھوڑ دیا اس وقت تم ہلاک ہوگئے (یعنی صحیح احادیث) اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بعض اصحاب سے فرمایا: جب تجھے رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث پہنچے تو تجھے کوئی دوسری بات کرنے سے ڈرنا چاہیئے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے مبلغ تھے '' ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے الامام الجلیل سفیان ثوری رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: '' پورے کا پورا علم آثار کا علم ہی ہے '' ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ہم میں سے ہر ایک رد کرنے والا ہےیا اس کی بات اس پر رد کی گئی ہے مگر اس قبر والے کی کوئی بات بھی رد نہیں کی جاسکتی '' اور نبی ﷺ کی قبر کی طرف اشارہ فرمایا۔۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کوئی حدیث آجائے تو وہ ہمارے سر آنکھوں پر ہوگی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایاکہ جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کی جائے اور میں اسے نہ لوں تو میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میری عقل چلی گئی(میں اس وقت دیوانہ ہوگیا ہوں گا)۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کی جب میں کوئی بات کہوں اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث اس کے خلاف ہو تو میرے قول کو دیوار پر مار دو ۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا کہ '' تم میری تقلید نہ کرو نہ امام مالک (رحمہ اللہ) کی نہ امام شافعی (رحمہ اللہ) کی بلکہ جہاں سے ہم نے لیا تم بھی وہاں سے لو''۔ اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ''مجھے اس قوم پر تعجب ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ سے اسناد اور اُن کی صحت سے باخبر ہیں ،پھر بھی وہ سفیان ثوری کی رائے کی طرف جاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے (النور: 63) پھر امام صاحب نے فرمایا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ خرابی (فتنہ)کیا ہے؟ فتنہ شرک ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے کسی قول کو رد کیا جائے تو انسان کے دل میں زیغ (کجی) پیدا ہوجائے اور وہ اسے ہلاک کردے ۔ امام بیہقی(رحمہ اللہ) ہی نے مجاہد(رحمہ اللہ) سے جو جلیل القدر تابعی ہیں نقل کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کا قول:الرد الی اللہ سے مراد کتاب اللہ (قرآن مجید) کی طرف رجوع ہے اور الرد الی الرسول سے سنت کی طرف رجوع ہے ۔ اور امام بیہقی (رحمہ اللہ) نے امام زہری (رحمہ اللہ) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ '' ہمارے پہلے بزرگ علماء فرمایا کرتے تھے کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے ہی میں نجات ہے'' علامہ موفق الدین ابن قدامہ نے اپنی کتاب '' روضة الناظر فی بیان اصول الاحکام میں تحریر کیا ہے کہ''ادلۃ کی دوسری اصل سنت رسول (ﷺ ) ہے'' معجزہ (یعنی قرآن پاک) کے رسول اللہ ﷺ کے قول کی صداقت پر دلالت کرنے کی وجہ سے آپ کی اطاعت پر اللہ تعالٰی کے حکم ،اور آپ کی نافرمانی پر اللہ تعالٰی کی ناراضگی اور وعید کی وجی سے آپ کا قول حجت ہے علامہ ابن کثیر (رحمہ اللہ) نے اپنی تفسیر میں سوررة نور كى ترسٹھویں آیت:کے تحت لکھا ہے کہ امر الرسول (ﷺ )سے مراد آپ کا راستہ ،منہاج ،طریقہ،سنت اور شریعت ہے، پس تمام اقوال و اعمال نبی پاک ﷺ کے اقوال و اعمال سے جانچے اور پرکھے جائیں گےجو آکے اقوال وعمال کے مطابق ہوں گے ، قبول کیے جائیں گے وارنہ اس کے کہنے یا کرنے والے پر رد کردیے جائیں گے خواہ اس کی شخصیت کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ صحیح بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے ، پس وہ عمل مردود ہے ۔ یعنی اسے ڈرنا اور بچنا چاہیئے جو شخص کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی باطن اور ظاہر میں مخالفت کرتا ہے کہ '' تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ '' کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوں یعنی ان کے دلوں میں کفر ، نفاق یا بدعت ہو (أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ) یا انہیں دردناک عذاب یعنی دنیا میں قتل ،حد یا قید وغیرہ ہے ۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابوھریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:''میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی ، جب اس آگ نے اپنے گرد و نواح کو روشن کردیا تو پتنگے اور وہ جانور(پروانے) جو اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیتے ہیں،اس میں اپنے آپ کو گرانے لگے،اس نے ان کو روکنا شروع کیاوہ اس پر غالب آجاتے اور خود کو آگ میں ڈال دیتے، آپ نے فرمایا کی میری اور تمہاری مثال بھی ایسی ہے ۔ میں تمہیں آگ روکنا شروع کیا ہے کی آگ سے بچو ! مگر تم مجھ پر غالب آتے ہو اور آپنے آپ کو اس میں گراتے ہو''۔ علامہ سیوطی نے اپنی کتاب '' مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ '' میں لکھا ہے کہ:'' اللہ تعالٰی تم پر رحم کرے ! جان لو کہ وہ حدیث جو اصول حدیث کے مطابق صحیح ثابت ہو ، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی ، اگر کسی شخص نے اس کے حجت ہونے سے انکار کیاتو وہ کافر ہوگیا اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گیااس کا حشرو نشر یہود نصاری کے ساتھ ہوگا یا پھر کافر فرقوں میں سے جس کا ساتھ اللہ کرنا چاہیں گے '' ۔ سنت کی تعظیم ،اور اس پر عمل کے وجوب اور اس کی مخالفت کی تحذیر کے سلسلے میں ، صحابہ کرام اور تابعین کے بہت سے آثار منقول ہیں، جب کہ ان کے بعد کے اہل علم و فضل کے بھی اس سلسلے میں بہت سے اقوال ملتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مجے امید ہے کی ہم نے جو آیات ،احادیث اور آثار و اقوال نقل کیے ہیں ، یہ کافی اور شافی ہوں گے، اور حق کے طلبگار کے لیے اطمینان قلب کا باعث ہوں گے ہم اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ تعالٰی سے ان کاموں کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو اسے راضی کرنے والے ہیں اس کے اسباب غضب سے بچانے والے ہیں، اور اس بات کو سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور سب کو سیدھے راستے پر چلائے ، بیشک وہ سننے والا اور قریب ہے۔ اور دیکھیے قرآن، حدیث، ایمان بالرسل، ارکان ایمان، ارکان اسلام ، دین کے بنیادی مصادر وغیرہ حوالہ جات وجوب العمل بالسنة النبویة وکفر من أ نکرها تألیف: سماحة الشیخ عبد العزیز بن باز رحمه الله ترجمہ: شیخ غلام مصطفٰی حسن زیر نگرانی: رئاسة ادارة البحوث العلمیة والافتاء، ریاض ۔ مملکت سعودی عرب |