ahdaaf wo asbaaq sura al zukhruf

مضمون کی فہرست

 

 

 

 

 

 

 

 

لفظ  الزخرف کا معنی

 

 

 

 

 

 

 

 

سونا                      sona               The Gold Adornment

 

 

سورۃ  الزخرف کا مقام نزول

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مکہ المکرمہ

 

سورۃ  الزخرف کے بعض اہداف

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

1۔دنیا کی چمک دمک سے دھوکا نہ کھانا۔

 

2۔یہ سورت ان لوگوں کے متعلق ہے جو دنیا کی چمک دمک میں مگن رہتے ہیں انہیں اس بات سے روکا جارہا ہے۔کیونکہ سابقہ امتیں اسی لیے ہلاک ہوگئیں کہ وہ دنیوی چمک دمک میں منہمک ہو گئیں تھیں۔

 

3۔اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آخرت کو جھٹلانے کی اہم وجہ یہی مال و متاع ہے۔(1)

 

(1)۔مزید تفصیل کے لیے اس کتاب کو ضرور پڑھیں-إنما الحياة الدنيا متاع :صلاح بن محمد البدير

 

4۔اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حقیقی شرف مال و دولت نہیں بلکہ دین ہے:

 

"وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ" ﴿٤٤﴾(سورۃ الزخرف)

 

 

 

 

 

 

 

"اور یقیناً یہ (خود) آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے اور عنقریب تم لوگ پوچھے جاؤ گے۔"

 

 (ذکر سے مراد شرف ہے) (2)

 

(2)۔من أسباب السعادة: عبد العزيز بن محمد السدحان

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

5۔حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ذکر ہے جو کہ زہد و ورع کی علامت سمجھے جاتے ہیں :

 

"وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ"﴿٦٣﴾ (سورۃ الزخرف)

 

 

 

 

 

 

 

"اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) معجزے کو لا ئے تو کہا۔ کہ میں تمہارے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ جن بعض چیزوں میں تم مختلف ہو، انہیں واضح کردوں، پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔"

 

6۔ظاہری اور ختم ہونے  والی نعمتوں کے مقابلے میں حکمت کو پیش کیا۔

 

7۔ساری سورت میں دنیوی چمک دمک کے خطرے سے واقف کیا گیا۔

 

"الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ" ﴿٦٧﴾ (سورۃ الزخرف)

 

 

 

 

 

 

 

 

"اس دن (گہرے) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔"

 

8۔دنیا داری کا دارومدار مادیت پر ہی ہے۔لیکن تقوی اور حکمت ہمیشہ رہنے والے ہیں،  عقلمندی اسی میں ہے کہ حقیر دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی جائے۔

 

9۔اس سورت کا نام زخرف رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس میں مال و دولت کو بجلی سے اور چمکدار زیور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بہت سارے لوگ اس سے دھوکہ کھاتے ہیں  جبکہ اللہ کے پاس اس کی قدر مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی دنیا نیک و بد دونوں کو دیتا ہے۔اور آخرت میں صرف نیک لوگوں کو فائدہ ہوگا۔دنیا دارالفنا ہے اور آخرت دارالبقا ہے۔(3)

 

(3)۔مزید تفصیل کے لیے اس کتاب کو ضرور پڑھیں - الدنيا ظل زائل: عبد الملك القاسم

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

10۔اس سورہ میں قصہ موسی علیہ السلام  مع فرعون اور قصہ عیسی علیہ السلام  مع قوم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ جدالی مزاج پر خوب وار کیا گیا ہے ۔

 

11۔جدال، اعراض ، کٹ حجتی، بحث و مغالطہ سب کی خوب جم کر قلعی کھولی گئی اور کفر سے براءت کا اظہار کرکے فرق کردیا گیا۔ کسی بھی قسم کے زخرفہ سے دھوکہ میں نہ آئیں چاہے   دنیا ہزار زخرفے اور چکاچوند لے کر آئے صراط مستقیم کی شاہراہ واضح ہے :

 

 "ليلها كنهارها، ‏‏‏‏‏‏لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك"

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 "میں نے تم کٍو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے" (4)

 

(4)۔سنن ابن ماجہ / کتاب: مقدمہ / باب : ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع ۔حدیث نمبر: 43،سنن ابی داود/السنة 6 (4607)، سنن الترمذی/العلم 16 (2676)، (تحفة الأشراف: 9890)، مسند احمد (4/126، 127)، سنن الدارمی/المقدمة 16 (96)"(5)

 

(5)۔اقتضاء الصراط المستقیم : ابن تیمیہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

12۔اسلام دنیا میں اچھے کھانے پینے اور کمانے سے نہیں روکتالیکن آخرت کے نقصان کی بنیاد پر دنیا کو ترجیح دینا اس کو برا سمجھتاہے ، مال تو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا لیکن اسلام کہتاہے تم قارون مت بنو، عہدہ تو عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ کے پاس بھی تھا اسلام یہ کہتا ہے کہ تم ہامان اور فرعون مت بنو۔

 

 

سورۃ  الزخرف کےبعض موضوعات

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

1۔قرآن،  اس کی زبان اور اس کا مقام۔ (1-4)

 

2۔حد سے آگے بڑھنے والے، ان کا انبیاء کا مذاق اڑانا اور ان کا انجام۔ (5-8)

 

3۔مشرکوں کی افترا پردا زیاں اور ابراہیم علیہ السلام کا کچھ قصہ۔ (15-35)

 

4۔جو اللہ کے ذکر سے اعراض کرے شیطان اس کا دنیا اور نار جہنم میں ساتھی بن جاتا ہے ۔ (36-42)

 

5۔نبی ﷺ کو چند ہدایات۔ (43-45)

 

6۔موسی اور عیسی علیہما السلام کا قصہ ، عیسی علیہ السلام کا نزول علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ (46-66)

 

7۔متقیوں کے لیے جنت اور جہنمیوں کے لیے عذابات کا تذکرہ۔(67-80)

 

8۔اللہ کی وحدانیت کے دلائل ،  شرک اور اللہ کا بیٹا ہونے کی نفی۔ (81-89)

 

 

سورۃ  الزخرف کےبعض اسباق

 

 

 

 

 

 

 

1۔پچھلی سا ری کتا بوں پر قرآن کریم کا شرف اور مرتبہ بیا ن کیا گیا۔

 

2۔لوگ شرک اور فسا د میں اس قدر آگے  بڑھ گئے کہ ان کو نصیحت  اور وعظ کچھ  کا م  نہیں دے رہی ہے۔

 

3۔جب اللہ تعا لی نے اچھے اچھے  طاقتوروں کو  ہلا ک کردیا تو پھر  کمزور لو گ اللہ کی پکڑ سے   کیسے بچ سکتے ہیں۔

 

4۔صفا ت ربو بیت جو الو ہیت کا تقا ضا کر تے ہیں ان کے ذریعہ تو حید کو ثا بت کیا گیا۔

 

5۔عقیدہ بعث بعد المو ت کو ثا بت کیا گیا۔

 

6۔قرآن کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ازدوا جی زندگی سے متعلق  بھی رہنما ئی کر تا ہے۔

 

7۔قرآن کریم  نے کہا رشتہ زوجیت  ہر چیز میں مو جود ہے یہا ں تک کہ ذرہ میں    بھی۔

 

8۔سواری پر سوار ہو تے وقت یہ دعا  پڑھنا  مشروع     ہے: 

 

سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ﴿١٤﴾ (سورۃ الزخرف)

 

 

 

 

 

"پاک ذات ہے اس کی جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا حاﻻنکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی (13) اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔"

 

9۔مشرکین عرب  کے زما نہ جا ہلیت کا حا ل بیا ن کیا گیا   کہ وہ لو گ  اپنے لیے لڑکیوں کو عا ر سمجھتے تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیا ں قرا ر دیا کر دیتے تھے۔

 

10۔عورت زیورا ت اور نما ئش میں پلتی ہے لیکن جسما نی اور عقلی  اعتبا ر سے  کمزور ہو تی ہے۔

 

11۔جو آدمی دنیا میں  جھو ٹی اور با طل گوا ہی دیتا ہے اس کو قیا مت میں سوا ل کیا جائے گا اور اس کی سزا بھی دی جائے گی۔

 

12۔اللہ تعا لی پر کو ئی با ت بغیر علم کے بو لنا حرا م ہے  اور اللہ تعا لی  کی جا نب ایسی چیزوں کی نسبت کر نا جس کی اللہ تعا لی  نے اپنی طرف نسبت نہیں کی ہے حرام ہے۔

 

13۔بغیر علم کے کسی کی تقلید  حرا م ہے۔

 

14۔کما ل عقل یہ ہے کہ آدمی ہدا یت کی پیر وی کرے  اگر چہ کہ اس کی قوم اس کی  مخا لفت کرے۔

 

15۔شرک اور مشرکین سے برا ءت   وا جب ہے۔

 

16۔کفر انسا ن کو اللہ تعا لی  کی شریعت  ،قا نون اور تدبیر میں اعترا ض کر نے سے نہیں روکتا۔

 

17۔مالدا ری  ، محتا جی،  صحت اور بیما ری کی حکمت بیا ن کی گئی۔

 

18۔کفا ر کی ما لدا ری اللہ تعا لی  کی رضا مندی کی علا مت  نہیں ہے۔

 

19۔دنیا کی طرف میلا ن انسا ن کی فطرت میں ہے۔ دنیا مومنوں کے ایما ن میں فتنہ نہیں ہو تی تو اللہ تعا لی کفار کے گھروں کے چھت  چاندی کے بنا دیتا۔

 

20۔مومن کی نظر میں دنیا  حقیر اور معمو لی ہو نی چا ہیے  اور  آخرت کے مقا بلے میں  دنیا کو قید خا نہ سمجھنا چاہیے۔

 

21۔جو آدمی اللہ تعا لی کے ذکر سے اعراض کر تا ہے تو شیطا ن اس کا سا تھی بن جا تا ہے  ، اس کے دل میں وسوسے ڈا لتا ہے اور گمرا ہی کے راستے  کو مزین کر تا ہے   ۔

 

22۔گمرا ہ کر نے والے  اور گمراہ   ہونے والے سب  کو عذاب دیا جائے گا ،اس میں تھو ڑی بھی تخفیف نہیں ہو گی۔

 

23۔اللہ تعا لی کا وعدہ سچا ہے  جو اس نے اپنے  نبی سے کیا۔

 

24۔اللہ تعا لی نے نبی کی دشمنوں پر مدد کر کے اپنا وعدہ سچ کردکھا یا۔

 

25۔عقیدہ اور عمل کی سطح پر کتا ب وسنت کو مضبوطی سے  پکڑنا  لا زم ہے  ۔

 

26۔اس امت کا شرف قرآن کی وجہ سے ہے، جو قوم اس کوضا ئع  کرے گی اللہ اس کو ضا ئع اور ذلیل کرے گا۔

 

27۔اللہ تعا لی کا قانون  ہے کہ افراد اور جماعت کا گنا ہوں کی وجہ سے  وقتا فوقتا مؤا خذہ کرتا ہے تا کہ وہ   تو بہ کریں۔

 

28۔وعدہ خلا فی اور عہد شکنی حرا م ہے اور  یہ دونوں نفا ق کی نشانیاں ہیں۔

 

29۔فخر ومبا ہا ت متکبرین   اور ظا لمین کی  صفا ت میں سے ہے۔

 

30۔فقراء  کو حقیر اور معمولی سمجھنا  ظا لم اور متکبر   لو گوں کی صفا ت میں سے ہیں۔

 

31۔اللہ تعا لی  کے غضب سے بچنا  ضرو ری ہے  کیو نکہ وہ جب غضبنا ک ہو تا ہے تو بڑی سخت پکڑ پکڑ تا ہے۔

 

32۔با طل  کے لیے جدال مذمو م ہے۔

 

33۔حضرت عیسی  علیہ السلام  کے شرف اور مقام کو بیا ن کیا گیا۔

 

34۔حضرت عیسی علیہ السلام  اس دنیا میں دوبا رہ نزول فرمائینگے   اور ان کی آمد قیا مت کے وقوع کی دس بڑی نشا نیوں میں  سے ایک  نشا نی  ہے۔

 

35۔بعث بعد الموت کو ثا بت کیا گیا۔

 

36۔شیطا ن کی اتبا ع حرا م  ہے کیونکہ وہ خو د گمرا ہ ہے۔

 

37۔یہود ونصا ری  کو دردنا ک  عذاب  کی وعید سنا ئی گئی۔

 

38۔ہر قسم کی دوستیا ں قیا مت کے دن ختم ہو جا   ئینگی  سوا ئے ان کے  جن کی دوستیوں کی بنیا د اللہ تعا لی  کی رضا پر ہو۔

 

39۔تقوی  کی  فضیلت اور متقیوں  کے شرف کو بیان کیا گیا۔

 

40۔اللہ تعا لی  مومن اور اس کی نیک بیوی کو  جنت میں جمع کرے گا۔

 

41۔اللہ تعا لی  کے فضل  کے بعد ایما ن اور اعما ل صالحہ  جنت میں دخو ل کا سبب ہیں۔

 

42۔شرک اور گنا ہ جہنم میں دا خلہ کا سبب ہے  اور یہ اللہ تعا لی کا عدل ہے۔

 

43۔جہنمی جہنم میں اس عذاب کی تا ب نہ لا کر کےمو ت مانگیں گے لیکن مو ت نہیں آئیگی کیو نکہ مو ت کی موت ہو چکی ہو گی۔

 

44۔حق کی نا پسندیدگی کے عوا مل میں سے  ایک دنیا کی محبت  اور خواہشات کی پیروی ہے۔

 

45۔سابقہ تما م آسما نی کتا بوں پر قرآن مجید کا شرف بیا ن کیا گیا  ۔

 

46۔باطل امور میں آبا ء واجدا د کی اتباع واندھی تقلید حرا م ہے۔

 

47۔اللہ تعا لی کے نزدیک دنیا معمو لی اور حقیر ہے اور اس کی حیثیت مو من کے لیے قید خا نہ  اور کا فر کے لیے جنت کی  ہے۔

 

48۔عقیدہ اور عمل کی سطح پر قرآن اور سنت رسول ﷺ کو مضبو طی سے لا زم پکڑا جا ئے۔

 

49۔اس امت کا مقام قرآن مجید پر عمل کرنے  میں ہے  جو اس کو  ضا ئع کرے گا اللہ تعا لی  اس کو ضائع    کرے گا۔

 

50۔شفا عت اللہ تعا لی کی ملکیت ہے اللہ تعا لی  اپنے نیک با عمل بندوں میں سے جس کو چا ہتا ہے  شفا عت کا حق عطا کر تا ہے۔

 

51۔کفار اللہ تعا لی کی ربو بیت  کے قا ئل تھے لیکن اس کی الو ہیت میں شرک کیا کر تے تھے۔

 

52۔دعوت کے مرا حل  میں سے ایک مرحلہ یہ ہے کہ  ان پر اتمام حجت  کے بعد ان سے اعراض   کرلیا جائے۔

 

 

سورۃ  الزخرف میں حفظ و تدبر و حدیث برائے تذکیر و تزکیہ اور دعوت و اصلاح

 

 

 

 

 

 

 

آیت:"وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَـٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ ﴿٣٣﴾وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ ﴿٣٤﴾ وَزُخْرُفًا ۚ وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ" ﴿٣٥﴾

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

" اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہو جائیں گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنادیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے (33) اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وه تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے (34) اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائده ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لیے (ہی) ہے۔ (35) ۔"

 

آیت:"وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ﴿٣٦﴾ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ" ﴿٣٧﴾(سورۃ الزخرف)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

" اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے ۔اور وه انہیں راه سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں۔

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً".

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ جاتا ہوں۔"(6)

 

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah says: 'I am just as My slave thinks I am, (i.e. I am able to do for him what he thinks I can do for him) and I am with him if He remembers Me. If he remembers Me in himself, I too, remember him in Myself; and if he remembers Me in a group of people, I remember him in a group that is better than they; and if he comes one span nearer to Me, I go one cubit nearer to him; and if he comes one cubit nearer to Me, I go a distance of two outstretched arms nearer to him; and if he comes to Me walking, I go to him running.' "

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

(6)۔صحیح بخاری / کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں / باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) ارشاد "اور اللہ اپنی ذات سے تمہیں ڈراتا ہے"۔حدیث نمبر: 7405

 

ماخوذ از  کتاب "اہداف و اسباق قرآن، موضوعات، لطائف تفسیر، تذکیر و ہدایات" از شیخ ارشد بشیر مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ، بانی و ڈائرکٹر آسک اسلام پیڈیا ڈاٹ کام،صفحہ  299تا304

464 Views
ہماری اصلاح کریں یا اپنی اصلاح کرلیں
.
تبصرہ
صفحے کے سب سےاوپر