اہل باطل کی معصیت کے مواقع پر اہل اسلام کو طاعت و فرمانبرداری میں اضافہ کا حکم نہیں دیا گیا

Table of Contents

 

اہل باطل کی معصیت کے مواقع پر اہل اسلام کو طاعت و فرمانبرداری میں اضافہ کا حکم نہیں دیا گیا

1 ـنبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ليكر آج تك جاہليت كے تہوار و مواقع اور اہل كفر اور گمراہ لوگوں كے تہوار پائے جاتے رہے ہيں ليكن ہميں كوئى نص نبوى نظر نہيں آتى كہ جس ميں جب ہمارے علاوہ دوسرے معصيت كا ارتكاب كر رہے ہوں تو ہم اطاعت و فرمانبردارى كرنا شروع كر ديں، اور نہ ہى ہميں كوئى ايسى نص نبوى ملتى ہے جو بدعتى فعل كے وقت ہميں كوئى مشروع عمل كرنے كى ترغيب دلاتى ہو، اور اسى طرح كسى بھى مشہور امام سے اس فعل كا استحباب منقول نہيں۔

يہ تو ايسے ہے كہ معصيت كا علاج بدعت كے ساتھ كيا جا رہا ہے، بالكل اسى طرح جس طرح حزن و غم ميں يوم عاشوراء كے موقع پر شيعہ حضرات سينہ كوبى اور ماتم كر كے كرتے ہيں، اور اس كے علاج ميں كچھ لوگ اس موقع پر فرحت و خوشى كا اظہار اور زيادہ خرچ كر كے كرتے ہيں۔

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا مسئلہ مصائب كے ايام كو ماتم كے ايام بنا لينا تو يہ مسلمانوں كے دين ميں نہيں، بلكہ يہ جاہليت كے دين كے زيادہ قريب ہے، پھر انہوں نے اس كى وجہ سے روزہ ركھنے كى جو فضيلت تھى وہ بھى كھو دى، اور بعض لوگوں نے اس روز وہ اشياء ايجاد كر لي ہيں جو بعض موضوع قسم كى احاديث كى طرف منسوب ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، مثلا اس روز غسل كرنے كى فضيلت، يا پھر سرمہ لگانے يا مصافحہ كرنے كى فضيلت، اس كے علاوہ دوسرے ايجاد كردہ امور يہ سب مكروہ ہيں، بلكہ صرف اس دن روزہ ركھنا مستحب ہے۔

اور اہل و عيال پر اس دن زيادہ خرچ كرنے ميں معروف آثار مروى ہيں، ان ميں سب سے اعلى يہ حديث اور اثر ہے:

ابراہيم بن محمد بن المنتشر اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں: كہ ہميں يہ بات پہنچى ہے جو يوم عاشوراء ميں اپنے اہل و عيال پر زيادہ خرچ كرتا ہے، اللہ تعالى سارا سال اس پر وسعت كرتا ہے"۔

اسے ابن عيينہ نے روايت كيا ہے۔

يہ روايت منقطع ہے اور اس كے قائل كا علم نہيں، اور زيادہ يہى معلوم ہوتا ہےكہ جب نواصب اور روافض كے مابين تعصب پيدا ہو گيا تو يہ وضع كر لى گئى؛ كيونكہ شيعہ اور روافض نے يوم عاشوراء كو ماتم اور غم و حزن كا دن بنا ليا، اور اس كے مقابلہ ميں دوسروں نے ايسے آثار وضع كر لے جو يوم عاشوراء كے دن زيادہ خرچ كرنے كا تقاضا كريں، اور انہوں نے اسے عيد بنا ليا يہ دونوں ہى باطل ہيں...

ليكن كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى دوسرے كے ليے شريعت ميں تغير و تبدل كر لے، اور پھر يوم عاشوراء ميں فرحت و خوشى كا اظہار كرنا، اور اس دن اہل و عيال پر زيادہ خرچ كرنا يہ سب بدعات ميں شامل ہوتا ہے، اور رافضى شيعہ كا مقابلہ ہے....(1)

(1)۔ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم(300- 301)

 

·       سبب اور وقت میں تشریع کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے

2 ۔دعا اور نماز كے ليے شريعت ميں كچھ افضل اوقات پائے جاتے ہيں، جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسا كرنےكى ترغيب دلائى ہے مثلا: رات كا آخرى حصہ، جو كہ اللہ رب العزت كا آسمان دنيا پر نزول كا وقت ہے، اور كسى ايسے وقت ايسا كرنے كى ترغيب دلانا جو شريعت ميں وارد نہيں اور صحيح نص ميں نہيں ملتا تو يہ سبب اور وقت ميں تشريع ہے، اور ان ميں سے كسى ايك كى مخالفت ہى اس فعل كے بدعت ہونے كاحكم لگانے كے ليےكافى ہے، تو پھر ايك دونوں كى مخالفت ہو تو آپ كيا خيال كرتے ہيں ؟!

جب ہم مسلمان صدقہ كرنا چاہتے ہيں تو يہ صدقہ حقيقى مستحق تك پہنچايا جاتا ہے، اور ہم اسے كفار كے تہوار كے موقع نہيں كرتے كہ اس دن صدقہ كيا جائے، بلكہ جب بھى ضرورت و حاجت ہو صدقہ كرتے ہيں، اور خاص كر عظيم خير و بھلائى كے مواسم تلاش كرتے ہيں مثلا رمضان اور عشرہ ذوالحجہ يعنى ذوالحجہ كے پہلے دس ايام، اور دوسرے نيكى كے مواسم۔ انتہى

اصل ميں مسلمان شخص كو اتباع كرنى چاہيے نہ كہ بدعت كى ايجاد اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

"قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ"﴿٣٢﴾ (سورۃ آل عمران)

﴿ كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اتباع كرو اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالى بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے، كہہ ديجئے اللہ تعالى كى اور رسول كى اطاعت كرو، اگر تم پھر جاؤ تو يقينا اللہ تعالى كافروں سے محبت نہيں كرتا ﴾

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ آيت كريمہ ہر اس شخص كے حاكم كا درجہ ركھتى ہے جو اللہ سے محبت كا دعوى كرتا ہے ليكن وہ محمدى طريقہ پر نہيں، كيونكہ وہ اپنے دعوى ميں اس وقت تك جھوٹا ہے جب تك شريعت محمدى دين نبوى كى اپنے سارے اقوال و اعمال اور احوال ميں اتباع نہيں كرتا، جيسا كہ صحيح مسلم ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:

قَال النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"‏‏‏‏ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :"جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے میں ہمارا کوئی فیصلہ نہیں تھا تو وہ رد ہے۔"(2)

(2)۔صحیح بخاری :کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا،باب: جب کوئی عامل یا حاکم اجتہاد کرے اور لاعلمی میں رسول کے حکم کے خلاف کر جائے تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہو گا۔حدیث نمبر:7350۔ صحیح مسلم / جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب / باب : غلط باتوں اور نئی باتوں کے ابطال کا بیان جو دین میں نکالی جائیں ۔حدیث نمبر: 4493

(2)۔ملاحظہ فرمائیں: تفسير ابن كثير(2/ 32)

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

"رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى جان سے بھى زيادہ محبت كرو، كيونكہ اس كے بغير ايمان مكمل نہيں ہوتا، اور تم اپنے دين ميں كوئى ايسى چيز نئى ايجاد مت نہ كرو جو اس ميں سے نہيں۔

لہذا طالب علم اور علماء پر واجب وہ لوگوں كے ليے بيان كريں اور انہيں كہيں كہ: تم شرعى اور صحيح عبادات ميں مشغول رہو، اور اللہ كا ذكر كرو، اور ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھا كرو، اور نماز كى پابندى كرو، اور زكاۃ ادا كرتے رہو، اور ہر وقت مسلمانوں كے ساتھ حسن سلوك كرو"(3)

(3)۔ملاحظہ فرمائیں: لقاءات الباب المفتوح(35/ 5)

واللہ اعلم

حوالہ جات:https://islamqa.info/ur/113064

539 Views
ہماری اصلاح کریں یا اپنی اصلاح کرلیں
.
تبصرہ
صفحے کے سب سےاوپر