اہداف و اسباق از سورۃ المؤمنون

مضمون کی فہرست

 

 

 

 

 

 

 

 

لفظ  المؤمنون  کا معنی

 

المؤمنون                         Mu’mineen             The Believers

 

 

سورۃ  المؤمنون کا مقام نزول

 

مکہ المکرمہ

 

 

سورۃ  المؤمنون کے بعض اہداف

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

1۔مومنوں اور کافروں کی صفات میں موازنہ۔

 

2۔اس سورت میں اتمام حجت اور وضاحت کا پورا سامان ہے۔ اس سورت میں مومنوں اور کافروں کا فرق واضح کیا گیا۔


3۔فلاح پانے والے اور فلاح نہ پانے والے کا ذکر ، ابتدا "قد افلح المومنون" اور انتہا "انه لا يفلح الكافرون"

 

 

سورۃ  المؤمنون کےبعض موضوعات

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

1۔مومنین کے صفات اور ان کےجزا کا بیان(11-1)

 

2۔کائنات میں قدرت الٰہی کے مظاہر ،بعث بعد الموت کا اثبات اور اللہ کے انعامات کا مظہر  (22-12)

 

3۔نوح،ہود ،موسیٰ، ہارون  کی بہن اور عیسٰی عليهم السلام کے قصے بیان کیے گئے (50-23)

 

4۔رسولوں کےلیے تعلیمات اور ان کے عقیدےاور دعوت کی وحدانیت اور رسولوں کے بعد لوگوں کےاختلاف  کا تذکرہ (56-51)

 

5۔مومنین کی صفات،اور کافروں کی صفات کا بیان، کافروں کے اعمال پر ان کے لیے وعید کا تذکرہ (77-57)

 

6۔قدرت الٰہی کے بعض مظاہر، مشرکین کا بعث بعد الموت کو انکار کرنے پر رد اور اللہ کی وحدانیت  کااثبات(92-78)

 

7۔مشرکین کا آخرت سے انکار پر رد اور توحید الوہیت کا اثبات(92-81)

 

8۔نبیﷺ کے لیے الٰہی تعلیمات ،اور موت کے وقت انسان کی ندامت  اور قیامت کے دن کے چند مناظر(93-118)

 

 

سورۃ  المؤمنون کےبعض اسباق

 

 

 

 

 

 

 

1۔بسا اوقات مومن سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ فورا مغفرت طلب کرے۔

 

2۔قد افلح المؤمنون۔۔  اللہ نے مؤمنوں  سے دنیا وآخرت میں فلاح  کا وعدہ کیا ہے ۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف  ورزی نہیں کرتا ۔

 

3۔لفظ "قد" کے ذریعہ  تعبیر  کرنے کا مطلب یہ ہے کہ  فلاح یقینی ہے اور یہ ماضی کی قربت  کے لیے آتاہے،  یہ اس طرح   کہ حال سے گزرا ہوا زمانہ بہت قریب ہے ،اسی لیے  قد قامت الصلاۃ کہا جاتاہے  اس کے قائم ہونے سے پہلے،  اس کا معنی  یہ ہوگا فلاح ان کو حاصل ہوگئی  اور یہ اس حالت میں فلاح پاگئے  ۔

 

4۔اللہ نے اپنے مومن بندوں کے فالح و کامیاب  ہونے کی خبر دیتے ہوئے  ان کی  صفات بھی بتائی  اور ان پر لازم  کردیا کہ وہ ان صفات کو اپنائیں  ، اس کے بغیر فلاح نہیں  ہوسکتی ۔

 

5۔اہل ایمان  اپنی صلاۃ میں خشوع اختیار کرتے ہیں  ،اس طرح کہ ان کے اعضاء و جوارح پر بھی خشوع طاری ہوتاہے،  اس طرح خشوع والی نماز  کی تعریف کی اور اس پر محافظت کرنے کی تاکید  کی کیونکہ ان کا معاملہ ان کے دو نوں کے بغیر نہیں ہوسکتا، جو صلاۃ کی محافظت کرے گی خشوع نہ رہے یا خشوع  رہے مگر مداومت نہ ہو یہ  لوگ قابل مذمت ہیں اور یہ عبادت ناقص ہے ۔

 

6۔ اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ لغویات سے اعراض کرتے ہیں  تاکہ وہ اللہ  کے ذکر اور طاعت میں مشغول ہوجائیں،   مومن  کو چاہیے کہ وقتا فوقتا اپنے نفس سے ان چیزوں کو دور کرتا رہے ۔

 

7۔زکاۃ دینا دل کی اور مال کی پاکی ہے،  یہ انفرادی و اجتماعی سلامتی اور پوری جماعت کے لیے تفکک اور انحلال سے بچاؤ ہے ۔

 

8۔زنا کی حرمت سے روح، گھر اور جماعت کی طہارت ہے اور نفس ، خاندان اور سوسائٹی کے لیے بچاؤ ہے  اور وہ جماعت جس میں شہوتیں عروج پر ہوں  بری جماعت ہے اور بشریت  کی سلامتی کو ختم کرنے والی ہے،  اسی طرح متعہ اور غیر شرعی  نکاح حرام ہے ۔

 

9۔وہ عورتیں جو اسلامی لشکر کے پاس قیدی بنا کر لائی جاتی ہیں  ان کے  ساتھ  تعامل میں بہتری اختیار کریں  اور ان کے نجی و ذاتی حقوق کو پورا کریں تاکہ معاشرہ حرام کاریوں سے محفوظ رہے ۔

 

10۔امانت کو ان کے مستحقین تک پہنچا نا یہ ایک عظیم صفت ہے اور اجتماعیت کی بقا امانتوں کی ادائیگی میں ہی ہے  ، جس میں عہدوں کا پاس لحاظ کیا جاتاہے ۔

 

11۔صلاۃ کا مکرر ذکر کیا گیا اس کی اہمیت کو بتلانے کے لیے  لہذا اس کو سستی سے نہ چھوڑا جائے  اور نہ اس کو ضائع کیا جائے  اور نہ ہی  اس کے  قائم کرنے میں  تقصیر کی جائے  بلکہ اس کو ان کے اوقات میں پورے سنن و فرائض کے ساتھ بجالانا چاہیے ،صلاۃ کے ساتھ شروع ہو کر صلاۃ کے ساتھ ختم ہونا اس بات کو واضح کرتاہے  کہ ایمان کی تکمیل اسی سے ہوپائے گی۔

 

12۔اللہ کی تخلیق پر غور کرنا بھی عبادت  ہے جس پر ثواب ملتاہے  اور ایسا طریقہ ہے جس سے ایمان  بڑھتاہے اور ثابت قدمی  نصیب ہوتی ہے،  اس کی  عظیم تخلیق میں انسان کے تخلیقی مراحل ہیں جس کی ابتداء سے انتہاء  تک اللہ  کے وجود کی دلیل ہے ۔

 

13۔آسمان سے بارش  نازل ہونا بہت بڑی نعمت ہے،   وہ اندازے کے ساتھ اتارتا ہے  اپنی حکمت و تدبیر سے اتارتا ہے نہ ہی  زیادہ کہ غرقاب ہوجائے اور نہ اتنا کم کے ناکافی ہو ، نہ ہی اس کے  وقت سے پہلے  کہ سودمند نہ ہو اور اسی طرح  وہ پانی زمین میں ٹھہرا رہتاہے  جس طرح نطفہ کا پانی مادر رحم میں  ٹھہرارہتاہے  اللہ کی تدبیر کے ساتھ تاکہ اس سے زندگی کی نشو نما ہو۔

 

14۔اللہ نے اپنی قدرت سے تمام مخلوقات کو انسانوں کا تابع بنادیا ہے  اس میں ان  لوگوں کے لیے عبرت ہے جو عبرت حاصل  کرنا چاہتے ہیں، ایسے بھی چوپائے ہیں  جن سے لذیذ دودھ نکلتاہے  اور دودھ سے مختلف چیزیں بنتی ہیں  یہ ایک الہی معجزہ ہے اور ان کے گوشت کو کھانا حلال کیا مگر ان کو تکلیف دینے سے منع کیا۔

 

15۔اللہ نے واضح کیا کہ اس نے انسانوں  کے لیے جس طرح جانوروں کو مسخر کیا ، اسی طرح  زمین و آسمانوں  کو مسخر کیا  جو اللہ کے نظام کے تحت ہے جو تمام مخلوقات کے کام کو منظم کرتاہے  اور ساری کائنات اللہ کی مطیع ہے اور اللہ کی سنت و ارادہ سے چل رہی  ہے۔

 

16۔اللہ کی حکمت کے  تقاضے کے مطابق ضروری تھا کہ رسول انسانوں میں سے  ہوں  اور کفار سرکشی  کررہے تھے  کہ اللہ نے بشر کو نبی بنا کر  کیوں بھیجا اور رسول کی بشریت پر اعتراض ہوا، اس اعتراض کی  کوئی وجہ نہیں  اس لیے کہ لوگ فرشتوں کی اقتداء نہیں کرسکتے  ان کے انسانیت سے مختلف النوع ہونے  کی وجہ سے لہذا رسول کا بشر ہونا ضروری تھا۔

 

17۔اعداء اسلام کا ہمیشہ سے حربہ یہ رہا کہ وہ رسولوں  اور دعاۃ کے خلاف جھوٹ باندھتے  اور الزامات لگاتے رہے ، جیسے  مجنون کہنا ، جادوگر کہنا وغیرہ جو ان باتوں  کا شکار ہوا سے چاہیے کہ وہ صبر واستقامت سے کام لے  اللہ اس پر اچھا بدلہ دے گا۔

 

18۔ اللہ نے مومن بندوں سے نصرت کا وعدہ کیا ہے ، اور ظالموں  کو ہلاک کرنے کی دھمکی  دی ہے ، اس طرح  اللہ نے نوح علیہ السلام   کی دعا سن لی اور طوفان بھیج دیا، جو ہر شئ پر بھاری تھا، اور زمین کو شرک سے پاک کررہا تھا، تاکہ زمین دوبارہ طہارت و توحید پر شروع ہو۔

 

19۔ اللہ نے نوح علیہ السلام  کو کشتی بنانے کا حکم دیا، یہ  حکم اسباب کے اختیار کرنے پر دلیل ہے ۔ الہی مدد خالی بیٹھے رہنے  والوں  کے لیے نہیں   جو آرام سے بیٹھے رہتے ہیں  جو صرف انتظار کرتے ہیں۔

 

20۔اللہ کی سنتوں میں ابتلاء بھی ہے ۔ کبھی  ابتلاء صبر کے لیے  ہوتی تو کبھی شکر کےلیے ہوتی ہے ، ابتلاء کبھی اجر کے لیےہوتی ہے تنبیہ کے لیے، کبھی ادب سکھانے  کے لیے  ہوتی ہے  اور کبھی تمحیص کے لیے ہوتی ہے  ، نوح  علیہ السلام   کے واقعہ میں  مختلف قسم کے ابتلاء ہیں ۔

 

21۔عیش و آرام  سے فطرت تبدیل ہوتی ہے  اور خیالات بگڑ جاتے ہیں  اور دل احساس مسؤلیت کو بھول جاتاہے  اسی لیے  اسلام کسی  بھی قسم کے مہلک عیش و آرام سے جنگ کرتاہے  اور معاشرتی نظم قائم کرتا ہے  ایسے اصولوں  پر جس پر اتراف کرنے والوں  کو کوئی  گنجائش نہیں رہتی اورآرام پسند ہی ایسے لوگ ہیں  جو قیامت کا بڑی شدت سے انکار کرتے ہیں  اور رسول کی بات پر تعجب کرتے ہیں ۔

 

22۔غثاء کہتے ہیں  اس کوڑے کرکٹ کو جو بارش کے سیلاب سے ایک جگہ جمع ہوجاتاہے  جس کی کوئی  قیمت نہیں ہوتی اور نہ کوئی  بھلائی  ہوتی ہے جس کی  تکریم نہیں کی جاتی اس طرح  یہ لوگ بھی غثاء کی طرح ہیں  یہ اللہ کی رحمت سے دوری کی دلیل ہے اور ہر وہ فرد وجماعت جو اللہ کے منہج سے دورہے یہی مثال اورٹھکانہ ہے ۔

 

23۔ اختصار  کا اسلوب اختیار کرتے ہوئے  دعوت کی تاریخ بیان کی گئی  جو قرآن کے اسلوب میں سے ایک ہے  جس میں نوح علیہ السلام  ، ھود علیہ السلام  ، موسی علیہ السلام  اور عیسی علیہ السلام   کا ذکر ہے اور خاتم النبیینﷺ  تک بیان کیا گیا، ہر کسی نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور جب کبھی  جھٹلایا اللہ کے عذاب نے پکڑ لیا۔

 

24۔یا ایھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا۔۔  یہ رسولوں  سے خطاب ہے انہیں نداء دی جارہی ہے  تاکہ وہ اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں کو پورا کریں جس کا یہ لوگ انکار کررہے تھے  لہذا کھانا، پینا یہ بشری تقاضا ہے، رہا پاکیزہ چیزیں  کھانا وہ انسانیت کو اونچا اٹھاتا ہے ، اس کا تزکیہ کرتاہے  اور ملأ اعلیٰ  سے ملاتاہے  یہ شدت کے وقت میں دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے  ۔

 

25۔فتقطعوا امرھم بینھم زبرا۔۔  ان آیات میں  بتایا گیا ہے کہ تمام انبیاء ایک امت ہیں  جن کا صرف ایک ہی  کلمہ ہے  جو کلمہ توحید ہے لیکن  رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں  نے اختلاف کیا اور ٹکڑیوں میں بٹ گئے  جو نہ کسی منہج سے ملتے ہیں اور نہ طریقہ سے کیونکہ اللہ کے منہج کو چھوڑ کر غیر کی اتباع محض تفریق اور گمراہی  کی طرف لے جاتی ہے ۔

 

26۔کسی کےلیے  جائز نہیں ہے کہ  وہ اپنی کثرت طاعت اور عبادت پر غرور کرے بلکہ اسے چاہیے کہ اعمال میں اخلاص پیدا کرے  اور یہ کہ اپنے رب سے اس کے  قبول ہونے کی دعا کرے۔

 

27۔مؤمنین کی صفات میں سے ہے کہ ان کے دل ڈرے  سہمے رہتے ہیں  اور یہیں سے ایمان  کا اثر شروع ہوتاہے  اور یہ مومن اپنے رب سے خشیت اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، اور سبھی آیات پر  ایمان رکھتے ہیں اور شرک نہیں کرتے ۔

 

28۔قرآن نے  الزامی اسلوب اختیار کیا تاکہ ان کفار و مشرکین کی غفلت پر تنبیہ کی جائے ، تب وہ سمجھیں گے یہ سب کچھ  ان کو وقتی طور پر ملا ہے، مال و دولت اور اولاد یہ سب کچھ فتنہ ہے استدراج ہے ۔

 

29۔مومنین کی صفات ہیں کہ  وہ نیک کاموں میں  آگے آگے رہتے ہیں ، ہر مسلمان پر واجب ہے  کہ وہ نیک کاموں میں تنافس کرے اور برے کاموں  سے رک جائیں۔

 

30۔خوشحال لوگ ہی ہیں  جو لوگوں میں سب سے زیادہ  انحراف کا شکار اور انجام سے غافل ہیں اور یہی لوگ سب سے زیادہ دعاۃ  اور رسولوں  کے دشمن ہیں ۔

 

31۔مشرکین  کا قرآن ، رسول اور دعاۃ کے خلاف ہمیشہ سے ایک ہی موقف  رہا ہے ، ہر زمانے اور ہر جگہ پر  یہ ہمیشہ مذاق اڑانے اور تہمت لگانے میں مصروف رہتے ہیں ، عرب کی جاہلیت  ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی جاہلیت ہے جو مختلف زمانے سے چلی آرہی ہے ۔

 

32۔قرآن نے وہ تمام  شبہات بیان کردیے جو انہیں  ایمان سے پھیرتے ہیں ، اور یہ خصومت کو ختم کرنے کا بہترین اسلوب ہے ۔

 

33۔حق، نفس پرستی کے ساتھ نہیں  ٹھہرسکتا۔ آسمان  اور زمین  حق پر قائم ہیں، ساری کائنات حق پر ہے اور حق ایک ہی ہے اور خواہشات بے شمار ہیں ۔

 

34۔دعاۃ و مبلغین  کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں  سے اپنی دعوت کے لیے معاوضہ طلب کریں ، کیونکہ  سوال کے خوف سے وہ لوگ ہدایت سے منہ موڑ دیں گے ، اللہ کے پاس جو ہے وہ سب سے بہتر ہے اور یہی رسولوں  کا منہج ہے ۔

 

35۔ خیر و شر،  تنگی و خوشحالی کے ذریعہ آزمانہ یہ اللہ کی سنت ہے جس سے صرف متقی مومن ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو  آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انہیں نعمت اور ابتلاء   کا فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر نعمت  مل جائے  تو روک لیتے ہیں  اور اگر برائی  پہنچے تو دل نرم نہیں ہوتےاور   نہ ان کے   ضمیر جاگتے ہیں ۔

 

36۔وھوالذی ذراکم فی الارض والیہ تحشرون۔۔  ان آیات میں اللہ نے کائنات کے دلائل ذکر کیے ہیں جس کے ذریعہ توحید کا وجدان ان میں پیدا ہوجائےگا،  اگر انسان اپنی تخلیق و ہیئت اور جوارح پر غور کرے اور اپنی طاقتوں  کا اندازہ لگائے تو پتہ چلے گا کہ اس کا ایک  ہی خالق ہے ۔

 

37۔زندگی  اور موت یہ ہر لحظہ واقع ہونے والے  حادثے ہیں ، اللہ ہی ہے جو موت اور حیات کا مالک ہے  ، جو زندگی دیتاہے  جو اس کے  اندرون کو جانتاہے  اور طاقت رکھتا ہے کہ اس کو دے یا روک دے اور لوگ تو صرف ایک سبب ہیں زندگی کو ختم کرنے کے لیے وہ زندگی چھین نہیں سکتے ۔

 

38۔ بعث برحق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے  اس کا انکار جائز نہیں ، ان کی  عقلیں اللہ کی حکمت کو جاننے سے  قاصر ہیں اور اس کی   قدرت پر مذاق اڑاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ یہ تو ہمارے باپ داداؤں  کو بھی کہا گیا مگر اب تک واقع نہ ہوا، جبکہ اللہ نے   اس کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے  جس کو وہ نہ جلدی کرے گا اور نہ تاخیر کرے گا۔

 

39۔اللہ نے انسان کو سماعت اور بصارت دی اوردل دیا تاکہ  ان کے ذریعہ  اس کی تمام کارکردگی  پر سوال کیا جاسکے اور اس کی   صلاح وفساد پر بدلہ  دیا جاسکے ، اور حساب و جزاء آخرت میں ہی ہوگا، اور اس زمین  پر بدلہ نہیں دیا جاتا اور بدلہ آخرت کے لیے دن مقرر ہے ۔

 

40۔ ان آیات میں صحیح عقیدہ کو واضح کیا گیا اور مشرکین پر رد کیا گیا  تاکہ ان کی  بد عقیدگی  کی اصلاح ہو اور انہیں  توحید خالص پر لایا جائے ۔اگر وہ  فطرت پر باقی رہے تو اس طرح   کے سوال نہیں کرتے ۔

 

41۔عقلی دلائل  کی تیاری ملحدین اور منکرین پر حجت قائم کرنے کے لیے  ضروری ہے  تاکہ کافر و معاندین پر رد کیا جاسکے اور اللہ سے شریک اور اولاد کی نفی کی جاسکے ۔

 

42۔رسول کو ہدایت کی جارہی ہے  کہ وہ شیطان اور اس کے  وسوسے  سے اللہ کی پناہ طلب کریں اور ان کی  باتوں پر صبر کریں ۔ اور رسول کو تاکید کی جارہی ہے  کہ جب عذاب آئے تو یہ دعا کریں  کہ  اللہ انہیں ان لوگوں میں  نہ بنادے ۔ اس کے ذریعہ بعد آنے والوں کو تعلیم دی جارہی ہے  کہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور اللہ کے مکر سے انجان  نہ رہیں اور ہمیشہ اسکی  پناہ طلب کرتے رہیں ۔

 

43۔رسول کو شیطان کے ھمزات سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کو  کہا گیا ، جبکہ آپﷺ اس سے محفوظ تھے ۔ تقویٰ میں زیادتی اور اللہ کی طرف التجاء زیادہ سے زیادہ کرنے کی طرف رغبت دلائی گئی ،  اور امت کو تعلیم دلائی جارہی ہے  کہ وہ ہمیشہ اللہ کی پناہ طلب کرتے رہیں ۔

 

44۔کفار کے خلاف  دلائل اور ان کا انجام ذکر کرنے کے بعد نبی سے خطاب کرکے انہیں  مکارم اخلاق اپنانے اور ان کے  عناد پر غصہ نہ ہونے کی تاکید کی گئی ، برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی بات کی گئی ، اور شیاطین سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کو کہا گیا۔

 

45۔موت سے پہلے توبہ کرے کی نصیحت کی گئی ، اور واضح کیا گیا کہ کس طرح  دوبارہ زندگی عطا کی جانے والی ہے او راپنی اصلاح  کرنے کا تذکرہ کیا گیا ۔

 

46۔برزخ  کی زندگی برحق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے اور یہ اموات اھل دنیا سے بالکل الگ ہیں اور یہ لوگ اہل آخرت میں سے نہیں ہیں بلکہ  یہ تو برزخ  میں  ہیں جو ان کے درمیان ہے قیامت کے دن تک، اور عذاب قبر برحق ہے  عقلمند کو چاہیے کہ  وہ اپنے رب سے ملاقات کی تیاری  کرے اور جان لے کہ دنیا مختصر ہے ۔

 

47۔اللہ کی پاکی بیان  کرنا واجب  ہے اس چیز سے جسے وہ لوگ بیان  کرتے ہیں ، کیونکہ  وہی سچا بادشاہ ہے اور سچا کارساز ہے ۔ جس کے علاوہ  کوئی معبود نہیں ۔

 

48۔بروز محشر حساب  و کتاب ہوگا، اور پورے  عدل وانصاف کے ساتھ  ہوگا،  جس کا پلڑہ بھاری ہوگا وہ لوگ فلاح پائیں گے اور جن کا پلڑہ ہلکا ہوگا وہ ہمیشہ کی جہنم میں پڑے  رہیں گے ۔

 

49۔کافروں کی تصویر  کشی کی گئی کہ وہ لوگ جہنم میں ہوں گے ، ان کے چہرے  جل کر  بگڑ چکے ہوں گے  ، ھیئت بری ہو جائے  گی ، اور رنگ بدل جائے گا، عقلمند کو چاہیے کہ وہ اس سے چوکنّا رہے ۔

 

50۔رسولوں  اور اہل ایمان  کا مذاق اڑانا کفر کرنے  کے بعد دوسرا بڑاجرم ہے جسکی وجہ سے وہ جہنم میں جائیں گے  یہ لوگ بے وقوفی کی حد پارکرچکے  ہیں مذاق اڑا کر  اور اللہ کے ذکر سے غافل ہوگئے اور کائنات سے ایمان کے دلائل  کچھ فائدہ نہ دے  سکے ۔

 

51۔ان آیات کا اختتام توحید الوہیت پر ہورہا ہے  اور غیر اللہ کو پکارنے سے ڈرایا جارہا ہے  اور بڑے خسارے سے ڈرایا جارہا ہے ان لوگوں  کو جو شرک کرتے ہیں،  سورت کی ابتداء کے بالمقابل جہاں اہل ایمان کو فلاح  کے ساتھ ذکر  کیا۔

 

52۔دعا، صرف ایک اللہ سے ہی کرنی چاہیے  ، کیونکہ  دعاء کو وہی قبول کرتاہے  ۔ اسی لیے  ان آیات میں اللہ  کی رحمت اور مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ  وہ ارحم الراحمین ہے اسی کی رحمت سے فلاح اور فوز ممکن ہے ۔

 

 

سورۃ  المؤمنون میں مناسبت یا لطائف تفسیر

 

 

 

 

 

 

 

 

سابقہ سورت میں لوگوں تک حق کو پہنچانے کے لیے جد و جہد کرنے کی تعلیم دی گئی جو کہ فرض منصبی ہے۔ اس سورت میں شہادت حق کا فریضہ انجام دینے والوں کے اوصاف کیا ہوتے ہیں بیان کیے گئے : قد افلح المومنون۔۔ ۔

 

 

سورۃ  المؤمنون میں حفظ و تدبر و حدیث برائے تذکیر و تزکیہ اور دعوت و اصلاح

 

 

 

 

 

 

 

آيت1 :" قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ﴿٤﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴿٨﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٩﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ" ﴿١١﴾(سورۃ المؤمنون)

 

"یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی (1) جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں (2) جو لغویات سے منھ موڑ لیتے ہیں (3) جو زکوٰة ادا کرنے والے ہیں (4) جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنے والے ہیں(5) بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں (6) جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں (7) جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں (8) جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں (9) یہی وارث ہیں (10) جو فردوس کے وارث ہوں گے جہاں وه ہمیشہ رہیں گے۔"

 

آيت2: أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴿١١٥﴾ فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ﴿١١٦﴾ (سورۃ المؤمنون)

 

"کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے (115) اللہ تعالیٰ سچا بادشاه ہے وه بڑی بلندی والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے۔"

 

ماخوذ از  کتاب "اہداف و اسباق قرآن، موضوعات، لطائف تفسیر، تذکیر و ہدایات" از شیخ ارشد بشیر مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ، بانی و ڈائرکٹر آسک اسلام پیڈیا ڈاٹ کام،صفحہ 174 تا181

1379 Views
ہماری اصلاح کریں یا اپنی اصلاح کرلیں
.
تبصرہ
صفحے کے سب سےاوپر