اہداف و اسباق از سورۃ البروج

مضمون کی فہرست

 

 

 

لفظ   البروج کا معنی

 

بروج                 The Big Stars                     Al-Burooj
 

 

سورۃ  البروج کا مقام نزول

 

مکہ المکرمہ

 

 

سورۃ  البروج کے بعض اہداف

 

1۔مومن مرد اور مومن عورتوں کو ستانے کا انجام۔ (1)

 

(1)۔مزیدمعلومات کے لیے اس کتاب کو ضرور پڑھیں (سمات المؤمنين في الفتن وتقلب الأحوال:صالح بن عبد العزيز آل الشيخ)

 

2۔اصحاب الاخدود کا قصہ مذکور ہے۔بتایا گیا کہ ان اہل ایمان نے دین وایمان کی خاطراپنی جان بھی دے دی ۔ (2)

 

(2)۔)مزید تفصیل کے لیے تفسیر ابن کثیرج8/ص367)

 

 

سورۃ  البروج کےبعض موضوعات

 

1۔اصحاب الاخدود کی لعنت پر اللہ کی قسم (9-1)

 

2۔ان لوگوں کو  وعید سنائی گئی جو مومنین کو ستاتے ہیں (10)

 

3۔مومنوں کے ثواب کا تذکرہ (11)

 

4۔کافروں کو تنبیہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے (16-12)

 

5۔فرعون اور ثمود کے ہلاکت کا تذکرہ (20-17)

 

6۔قرآن کریم کی عظمت کا بیان (22-21)

 

 

سورۃ  البروج کےبعض اسباق

 

1۔اللہ تعالی جو چاہے کر سکتا ہے۔(3)

 

(3)۔مزید معلومات کے لیے اس کتاب کو ضرور پڑھیں (أسماء الله وصفاته وموقف أهل السنة منها:محمد بن صالح العثيمين)

 

2۔آدمی کا ایمان اتنا پختہ ہو کہ اگر ایمان کے لیے جان بھی دینا پڑے تو قربان کردے ۔

 

3۔ثابت قدم مومنوں کی مثال بیان کی گئی ہے۔

 

4۔مؤمنوں پر ظلم کرنے والوں کے لیے دردناک انجام کا مژدہ سنایا گیا۔

 

5۔فرعون کا قصہ بیان ہوا جو سرکشی اورطغیانی  کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوا۔

 

6۔تاریخ کے ظالموں کا تذکرہ ، انفرادی طورپرفرعون اوربحیثیت قوم کے ثمود ۔

 

7۔اس سورہ میں اس نکتہ کو بہترطریقے سے سمجھادیاگیاہے کہ جب تخلیق اول ممکن ہے تو اعادۂ تخلیق کیا مشکل ہے؟

 

8۔اس سورت میں قریبی زمین کی تاریخی مثال اور واقعہ سنا کر دھمکی دی گئی ہے۔

 

9۔یعنی انسان کو تبشیروانذاردونوں طریقوں سےسمجھایاگیا ، کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو علمی اور عقلی دلائل سے مان جاتے ہیں اور کچھ لوگ انذارسے ہی مانتے ہیں ، ان دونوں طریقوں سے بھی جو نہ مانے اس پر اتمام حجت ہو جاتی ہے اور وہ جہنم رسید ہوتا ہے۔

 

10۔شیخ البانی  رحمہ اللہ  نے یہ فتوی دیا کہ وہ لوگ جن تک اسلام صحیح نہ پہنچا ان کے ساتھ اہل فترہ کا معاملہ کیا جائے گا۔قیامت میں ان کو ایک مہلت دی جائے گی اگر وہاں وہ کامیاب ہوئے تو ٹھیک ورنہ جہنم رسید ہوں گے۔

 

11۔آخر میں اس قرآن کوجو جھٹلاتے ہیں انہیں  بتایا گیا کہ یہ عظیم الشان کلام ہے جو لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔(4)

 

(4)۔مزید معلومات کے لیے اس کتاب کو ضرور پڑھیں (عظمة القرآن الكريم وتعظيمه وأثره في النفوس في ضوء الكتاب والسنة:سعيد بن علي بن وهف القحطاني)

 

12۔کفار جب حسد اور دشمنی پر اتر آتے ہیں تو وہ درندوں سے زیادہ بے رحم ہوجاتے ہیں ۔

 

13۔کفر انسان کے دل میں سختی پیدا کرتاہے ۔

 

14۔توبہ کا دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلا ہوا ہے ۔

 

15۔اللہ تعالیٰ کے قانون امہال کو واضح کیا گیا اور جب مہلت ختم ہوتی ہے تو پھر اللہ کی جانب سے بڑی سخت پکڑ ہوتی ہے ۔

 

16۔صبر کرنے والے مومنوں سے اللہ کا بہت بڑا وعدہ ہے ۔

 

17۔قرآن مجید یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا۔

 

18۔قرآن مجید کے نزول کے مراحل ذکر کیے گیے  کہ سب سے پہلے اس کو  لوح محفوظ میں  اتارا گیا پھر آسمان دنیا پر اتارا گیا پھر وقت ضرورت 23 سال کی مدت میں جبرئیل امین کے ذریعہ آپ ﷺ کے دل پر اس کا نزول وحی کی شکل میں ہوا۔

 

 

سورۃ  البروج میں مناسبت یا  لطائف تفسیر

 

1۔سورہ انشقاق میں جو اشارہ کیا گیا اور مسلسل سورتوں میں تکذیب و اسباب تکذیب ، اعتراضات کے جوابات، عقلی مشاہداتی، تاریخی مثالوں سے سمجھا دینے کے بعد سورہ بروج اور سورۂ طارق میں دھمکیوں اور warningکی شکل میں alertکیا گیا ۔(5)

 

(5)۔مزید معلومات کے لیے اس کتاب کو ضرور پڑھیں (درء تعارض العقل والنقل:أحمد بن عبد الحليم بن تيمية)

 

 

2۔روزہ قیامت سے لے کر مسلسل قیامت کے انکار کا ذکر اسباب اور قیامت کے اثبات انفس و آفاق کے شواہد ،سارے ماحول کا ذکر مختلف مراحل مع شواہد ودلائل کے  ایسا لگتاہے ایک مضمون ہے ۔ سورہ قیامہ سے سورہ انشقاق تک ایک ہی مضمون کو موتیوں کے ہارکی طرح پرودیاگیاہے ۔

 

3۔سورہ بروج اورسورہ طارق میں یہ بتلایا گیاہے کہ کفار قریش قیامت کے انکار کے ساتھ رسول او ر اصحاب رسول پر ٹھٹھا کرنے کی بیماری میں مبتلا تھے۔ اس میں مزیدتکذیب اوراس کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

4۔تکذیب کو مثالوں اور دھمکیوں کی روشنی میں سمجھایا گیا ہے۔ سورۃ بروج اور طارق میں ۔

 

5۔سورہ اعلیٰ سے مسلسل 10 سورہ تک خطاب مدعو سے ہٹ کر داعی پر ہے دعوتی کام میں دو پہلو پر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ کہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والے مسائل کو رفع کیا جائے، اور اثر انداز ہونے کے ذرائع ڈھونڈے جائیں جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ داعی کو اعلیٰ سے اعلیٰ اوصاف سے متصف کرنے کی کوشش کی جائے ۔داعیself development میں توجہ دے تاکہ opportunity کو avail  کرنے کا اہل بن سکے اور اسوہ ء رسول کی روشنی میں بہترسے بہترداعی بن سکے۔

 

 

سورۃ  البروج میں حفظ و تدبر و حدیث برائے تذکیر و تزکیہ اور دعوت و اصلاح

 

"قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ ﴿٤﴾ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ ﴿٥﴾ إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ ﴿٦﴾ وَهُمْ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ ﴿٧﴾ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿٨﴾ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿٩﴾ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ ﴿١٠﴾ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ "﴿١١﴾  (سورۃ البروج)

 

" خندقوں والے ہلاک کیے گئے ۔ وه ایک آگ تھی ایندھن والی۔  جب کہ وه لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے ۔اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے ۔ یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناه کا) بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وه اللہ غالب ﻻئق حمد کی ذات پر ایمانﻻئے تھے ۔  جس کے لیے آسمان وزمین کا ملک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے ہر چیز۔  بیشک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے ۔  بیشک ایمان قبول کرنے والوں اور نیک کام کرنے والوں کے لیے وه باغات ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔"

 

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ".

 

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا قید خانہ ہے مومن کے لیے اور جنت ہے کافر کے لیے۔“(6)

 

(6)۔صحیح مسلم / زہد اور رقت انگیز باتیں / باب : دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہونے کے بیان میں ۔حدیث نمبر: 2956

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ:‏‏‏‏ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ:‏‏‏‏ يَوْمُ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّاهِدُ:‏‏‏‏ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللَّهَ بِخَيْرٍ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْهُ ".

 

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” « اليوم الموعود » سے مراد قیامت کا دن ہے ، اور « واليوم المشہود » سے مراد عرفہ کا دن اور (« شاہد ») سے مراد جمعہ کا دن ہے ، اور جمعہ کے دن سے افضل کوئی دن نہیں ہے جس پر سوج کا طلوع و غروب ہوا ہو ، اس دن میں ایک ایسی گھڑی (ایک ایسا وقت) ہے کہ اس میں جو کوئی بندہ اپنے رب سے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا قبول کر لیتا ہے ، اور اس گھڑی میں جو کوئی مومن بندہ کسی چیز سے پناہ چاہتا ہے تو اللہ اسے اس سے بچا لیتا اور پناہ دے دیتا ہے ۔(7)

 

(7)۔سنن ترمذی / کتاب: تفسیر قرآن کریم / باب : سورۃ البروج سے بعض آیات کی تفسیر ۔حدیث نمبر: 3339 ، تحفة الأشراف: 13559)، شیخ البانی رحمہ اللہ نے  المشكاة (1362 / دوسری تحقیق) ، سلسلۃ الاحادیث الصحيحة (1502) میں اس حدیث کو حسن قرار دیا۔

 

عَنْ صُهَيْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ مَلِكٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَبِرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلْمَلِكِ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَابْعَثْ إِلَيَّ غُلَامًا أُعَلِّمْهُ السِّحْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ إِلَيْهِ غُلَامًا يُعَلِّمُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ فِي طَرِيقِهِ إِذَا سَلَكَ رَاهِبٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَعَدَ إِلَيْهِ وَسَمِعَ كَلَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْجَبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ مَرَّ بِالرَّاهِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَعَدَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا خَشِيتَ السَّاحِرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْ حَبَسَنِي أَهْلِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَشِيتَ أَهْلَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْ حَبَسَنِي السَّاحِرُ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى عَلَى دَابَّةٍ عَظِيمَةٍ قَدْ حَبَسَتِ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْيَوْمَ أَعْلَمُ آلسَّاحِرُ أَفْضَلُ أَمْ الرَّاهِبُ أَفْضَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ حَجَرًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ أَمْرِ السَّاحِرِ، ‏‏‏‏‏‏فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى يَمْضِيَ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَضَى النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى الرَّاهِبَ فَأَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ:‏‏‏‏ أَيْ بُنَيَّ أَنْتَ الْيَوْمَ أَفْضَلُ مِنِّي قَدْ بَلَغَ مِنْ أَمْرِكَ مَا أَرَى، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى فَإِنِ ابْتُلِيتَ فَلَا تَدُلَّ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْغُلَامُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُدَاوِي النَّاسَ مِنْ سَائِرِ الْأَدْوَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعَ جَلِيسٌ لِلْمَلِكِ كَانَ قَدْ عَمِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُ بِهَدَايَا كَثِيرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَاهُنَا لَكَ أَجْمَعُ إِنْ أَنْتَ شَفَيْتَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِاللَّهِ دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ، ‏‏‏‏‏‏فَآمَنَ بِاللَّهِ فَشَفَاهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى الْمَلِكَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ كَمَا كَانَ يَجْلِسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ:‏‏‏‏ مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَجِيءَ بِالْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ:‏‏‏‏ أَيْ بُنَيَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ مَا تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَجِيءَ بِالرَّاهِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى فَدَعَا بِالْمِئْشَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَقَّهُ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ ثُمَّ جِيءَ بِجَلِيسِ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَقَّهُ بِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِيءَ بِالْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَاصْعَدُوا بِهِ الْجَبَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَاطْرَحُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبُوا بِهِ فَصَعِدُوا بِهِ الْجَبَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَفَ بِهِمُ الْجَبَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَقَطُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَفَانِيهِمُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبُوا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَاحْمِلُوهُ فِي قُرْقُورٍ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَسَّطُوا بِهِ الْبَحْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَاقْذِفُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبُوا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْكَفَأَتْ بِهِمُ السَّفِينَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَغَرِقُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ الْمَلِكُ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَفَانِيهِمُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِلْمَلِكِ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِي حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا هُوَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَجْمَعُ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصْلُبُنِي عَلَى جِذْعٍ ثُمَّ خُذْ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ضَعِ السَّهْمَ فِي كَبِدِ الْقَوْسِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْ:‏‏‏‏ بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْمِنِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَجَمَعَ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ وَصَلَبَهُ عَلَى جِذْعٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَضَعَ السَّهْمَ فِي كَبْدِ الْقَوْسِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ثُمَّ رَمَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَعَ السَّهْمُ فِي صُدْغِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ يَدَهُ فِي صُدْغِهِ فِي مَوْضِعِ السَّهْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ النَّاسُ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ الْمَلِكُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ حَذَرُكَ قَدْ آمَنَ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِالْأُخْدُودِ فِي أَفْوَاهِ السِّكَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَخُدَّتْ وَأَضْرَمَ النِّيرَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ لَمْ يَرْجِعْ عَنْ دِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْمُوهُ فِيهَا أَوْ قِيلَ لَهُ اقْتَحِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلُوا حَتَّى جَاءَتِ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَتَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا:‏‏‏‏ الْغُلَامُ يَا أُمَّهْ اصْبِرِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ ".

 

سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا: میں بوڑھا ہو گیا ہوں میرے پاس کوئی لڑکا بھیج میں اس کو جادو سکھلاؤں۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا (نصرانی درویش یعنی پادری تارک الدنیا) وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھتا اور اس کا کلام سنتا۔ اس کو بھلا معلوم ہوتا۔ جب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو مارتا۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا۔ راہب نے کہا: جب تو جادوگر سے ڈرے تو یہ کہہ دیا کر میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھ کو روک رکھا تھا۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ ناگاہ ایک بڑے قد کے جانور پر گزرا جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک دیا تھا۔ لڑکے نے کہا کہ آج دریافت کرتا ہوں جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا: الہیٰ! اگر راہب کا طریقہ تجھ کو پسند ہو جادوگر کے طریقہ سے تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ چلیں پھریں۔ پھر اس کو مارا اس پتھر سے وہ جانور مر گیا اور لوگ چلنے پھرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا۔ وہ بولا: بیٹا! تو مجھ سے بڑھ گیا مقرر تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو قریب آزمایا جائے گا پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا۔ یہ حال بادشاہ کے ایک مصاحب نے سنا وہ اندھا ہو گیا تھا وہ بہت سے تحفے لے کر لڑکے کے پاس آیا اور کہنے لگا: یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھ کو اچھا کر دے۔ لڑکے نے کہا: میں کسی کو اچھا نہیں کرتا، اچھا کرنا تو اللہ کا کام ہے۔ اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں وہ تجھ کو اچھا کر دے گا۔ وہ مصاحب اللہ پر ایمان لایا۔ اللہ نے اس کو اچھا کر دیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کہا: تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ مصاحب بولا: میرے مالک نے۔ بادشاہ نے کہا: میرے سوا تیرا کون مالک ہے؟ مصاحب نے کہا: میرا اور تیرا دونوں کا مالک اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارنا شروع کیا اور مارتا رہا یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لیا۔ وہ لڑکا بلایا گیا بادشاہ نے اس سے کہا: اے بیٹا! تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے؟ وہ بولا: میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا، اللہ اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔ وہ راہب پکڑا ہوا آیا۔ اس سے کہا گیا: اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے نہ مانا، بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی چندیا پر رکھا اور اس کو چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گرا۔ پھر وہ مصاحب بلایا گیا اس سے کہا گیا: تو اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے بھی نہ مانا۔ اس کی چندیا پر بھی آرہ رکھا اور چیز ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گرا۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا۔ اس سے کہا: اپنے دین سے پلٹ جا۔ اس نے بھی نہ مانا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے چند مصاحبوں کے حوالے کیا اور کہا: اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ۔ جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو: اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر نہیں تو اس کو دھکیل دو۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے دعا کی الہٰی! تو جس طرح سے چاہے مجھے ان کے شر سے بچا۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھی کدھر گئے؟ اس نے کہا: اللہ نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند مصاحبوں کے حوالے کیا اور کہا: اس کو لے جاؤ ایک ناؤ پر چڑھاؤ اور دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دو۔ وہ لوگ اس کو لے گئے لڑکے نے کہا: الہٰی! تو مجھ کو جس طرح چاہے ان کے شر سے بچائے۔ وہ ناؤ اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے ساتھی سب ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا: تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا: اللہ تعالیٰ نے ان سے مجھ کو بچایا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا: تو مجھ کو نہ مار سکے گا یہاں تک کہ میں جو بتلاؤں وہ کرے۔ بادشاہ نے کہا: وہ کیا؟ اس نے کہا: تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر اور ایک لکڑی پر مجھ کو سولی دے، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے اور کمان کے اندر رکھ پھر کہہ اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا مالک ہے مارتا ہوں، پھر تیر مار۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھ کو قتل کرے گا۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور اس لڑکے کو ایک لکڑی پر سولی دی، پھر اس کے ترکش سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندررکھ کر کہا: اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے اور تیر مارا۔ وہ لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا، اور لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا: ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ کسی نے بادشاہ سے کہا: جس چیز سے تو ڈرتا تھا اللہ کی قسم وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے حکم دیا راہوں کے ناکوں پر خندقیں کھودنے کا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان کے اندر خوب آگ بھڑکائی اور کہا: جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے) نہ پھرے اس کو ان خندقوں میں دھکیل دو یا اس سے کہو کہ ان خندقوں میں گرے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجکی (پیچھے ہٹی) بچے نے کہا: اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔“(8)

 

(8)۔صحیح مسلم / زہد اور رقت انگیز باتیں / باب : اصحاب الاخدود کا قصہ ۔حدیث نمبر: 3005

 

ماخوذ از  کتاب "اہداف و اسباق قرآن، موضوعات، لطائف تفسیر، تذکیر و ہدایات" از شیخ ارشد بشیر مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ، بانی و ڈائرکٹر آسک اسلام پیڈیا ڈاٹ کام،صفحہ  455تا459

 

445 Views
ہماری اصلاح کریں یا اپنی اصلاح کرلیں
.
تبصرہ
صفحے کے سب سےاوپر